وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف آپ جب سے حکومت میں آئے ہیں آپ نے بڑے اچھے کام کیے ہیں بڑے دعوے کیے ان میں آپ کامیاب ہوئے ہیں ،آپ نے بجلی کی قیمتیں کم کی، آپ نے پٹول سستا کیا آپ نے ھسپتالوں میں میڈیسن کی ریل پیل کر دی ۔آپ نے اسکولوں میں بچوں کے لیے وہ مراعات دی جو پہلے کبھی کوئی حکومت نہ دے سکی آپ نے سکول میں بچوں کے لیے دودھ پلانے کا انتظام کیا جو قابل ستائش ہے اس موقع پر میں آپ سے ملتمس ہوں اگر آپ پاکستان کے عوام کو خالص دودھ مہیا کر دیں جو جس ریٹ پہ بھی ہو پاکستان کے 25 کروڑ عوام آپ کے مشکور ہوں گے اور جب بچہ بوڑھا نوجوان والد والدہ بہن اور بچے خالص دودھ پیئیں گے تو میں یہ دعوی کرتا ہوں کہ آپ کی ہسپتالوں میں مریضوں کی تعداد میں کمی ہوگی اور پاکستان کے عوام خالص دودھ ملنے پر جس طرح آپ ڈیلی اعلان کرتے ہیں کہ ہماری حکومت نے ایک اور قدم بڑھایا ہے جیسے کہ مریم نواز شریف صاحبہ نے آج پانچ اپریشن فری کرنے کا اعلان کیا ہے اس پر عوام کے لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں لیکن اپریشن کے لیے ڈاکٹروں کے پاس ٹائم نہیں ہوتا وہ مریض کو اتنی لمبی پیسوں کی لسٹ پکڑا دیتے ہیں کہ بیمار انسان وہ لسٹ دیکھ کر اس دنیا سے جانے کی تیاری کرتا ہے ۔آپ کا جیسے دعوی ہے کہ ہم نے پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا ھے پاکستان میں زر مبادلہ کثیر تعداد میں آ گیا ہے ،معیشت کا پہیہ چل گیا ھے خدارا اگر آپ ایک یہ سروے کرا دیں جو فیکٹریاں پورے پاکستان میں دودھ سپلائی کر رھی ہیں ان کا دودھ حاصل کرنے کا سورس کیا ہے کیا ان کمپنیوں نے لاکھوں کی تعداد میں بھینس اور گائے پال رکھی ہیں تو میری دانست میں جواب نہ میں ہوگا کیونکہ آپ جس مختلف دودھ بیچنے والی کمپنی سے پوچھیں گے ان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے کہ وہ حکومت کو یا عوام کو بتا سکیں کہ میں نے اتنے لیٹر دودھ فلاں گاؤں سے فلاں بندے سے حاصل کیا ہے اور یہ کروڑوں من دودھ جو کہ کراچی سے لے کے پشاور تک اور گلگت بلتستان سے لے کے کشمیر تک ہر دکان پر بند ڈبوں میں موجود ہے جبکہ ہر شہر اور گاؤں میں بھی گوالے کروڑوں من دودھ فروخت کر رہے ہیں لیکن ان کا بھی کوئی پتہ نہیں کہ ان کے پاس کہاں سے آتا ہے جبکہ حکومت نے لاہور کے شہریوں کو اس لیے بھی خالص دودھ سے محروم کر دیا ہے کیونکہ جن گوالوں کی بھینسیں اور گائے لاہور کے شہری علاقے میں موجود تھی ان کو شہر سے باہر دھکیل دیا گیا ہے اور جو لاہور میں بھینس کالونی بنائی گئی تھی وہ ایک بہت بڑا شہری آبادی کا حصہ بن چکا ہے نام اس کا بھینس کالونی ضرور ہے لیکن وہاں بھی بھینسیں اتنی نہیں ہیں کہ وہ پورے لاہور شہر کو دودھ مہیا کر سکے تو میں نے اپنی یہ درد مندانہ اپیل حکمرانوں سے کر دی ھے تاکہ وہ اس پر عمل کر کے پوری قوم کی ایک ہی نقطہ پر خدمت کر سکیں کہ ہم نے آپ کو خالص دودھ مہیا کیا ھے یقین جانیں عوام جس طرح گھی اٹا چینی دیگر کچن ایٹم کی بے انتہا ذیادہ قیمتوں کے باوجود خریدنے پر مجبور ہیں وہ انشاءاللہ دودھ اگر حکمران 400 روپے کلو پر بھی خالص عوام کو مہیا کر دیں تو رہتی دنیا تک ان کا نام رہے گا شریفوں اور زرداریوں نے اپنی اپنی حکومتوں میں جتنا بھی مال کمایا وہ اپنی جگہ الگ داستان ہے لیکن ان حکمرانوں نے خالص دودھ عوام تک پہنچانے کا جو عزم بالجزم کرنا ہے ان کو ہر چیز معاف کر دی جاے گی میں اس موقع پر اپنے حکمرانوں کو ایک تجویز پیش کرتا ہوں میں انہیں لاہور میں کئی دفعہ دیکھا ہے کہ ہزاروں لیٹر دودھ جو کہ قصور ،اوکاڑہ، گجرانوالہ اور دیگر علاقوں سے لاہور میں لایا جا رہا ہوتا ہے تو فوڈ اتھارٹی کے پرندے دودھ لانے والوں کو راستے میں روک کر دودھ کو ضائع کر دیا جاتا ہے کبھی ان فوڈ اتھارٹی کے لوگوں نے ان دودھ لانے والوں کا پیچھا کر کے یہ معلوم کیا ہے کہ انہوں نے اس علاقہ میں لوہے کی بھینسیں پال رکھی ہیں اور وہ روزانہ سینکڑوں من دودھ نکال کر لاہور اور دیگر شہروں میں فروخت کرتے ہیں میں گزارش کرتا ہوں اگر اس میری درخواست پر عمل کر لیا جائے تو پورے پاکستان میں جو فوڈ اتھارٹی کے کارکن ہیں وہ کوشش کریں تو میری اس گزارش میں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا لیکن اس جگہ پر جو امر معنی ہیں وہ یہی ہے کہ حکمران صرف باتیں کرتے ہیں عملی کاموں کی طرف توجہ نہیں دیتے پاکستان میں فوڈ اتھارٹی نہایت ہی اہمیت کا حامل ایک ڈیپارٹمنٹ ہے لیکن وہ ڈیپارٹمنٹ رشوت ستانی اور کھاؤ پیو کے چکر میں اپنی ساکھ کھو چکا ہے اور جس بھی ہوٹل پر یا کھانے پینے والی فیکٹریوں پر چھاپہ مارتے ہیں تو وہاں سے وہ مک مکا کر کے اپنی جیب گرم کر کے اپنے آفس کو واپس لوٹ جاتے ہیں میں وزیر اعلی پنجاب محترمہ مریم نواز شریف صاحبہ سے گزارش کرتا ہوں کہ جس طرح گرین لائن لاہور بنانے والوں نے آپ کے حکم کے مطابق پہلے سے بڑی سڑکوں پر رنگ کیا اور وہ ایک ہی بارش میں بارش کی نظر ہو گیا اور اس عمل کو دو ماہ سے زیادہ ہو چکے ہیں نہ تو دوبارہ ان سڑکوں پر کلر کیا گیا اور نہ ہی پتہ چلا کہ کس ٹھیکیدار نے کروڑوں روپے لوٹے ہیں ۔