نوجوان قیادت کی جھلک

احساس کے انداز تحریر ؛، جاویدایازخان

4

گذشتہ روز   ایک دیرینہ   ماہر زراعت دوست اور زمیندار پروفیسر مدحت کامل حسین کی رہائش گاہ پر زمیندارطبقہ کی   رہنمائی کے لیے منعقدہ  ایک افتتاحی  تقریب میں علاقے کے ممبر قومی اسمبلی اور وفاقی پارلیمانی سیکریٹری براۓ ریلوے میا ں عثمان نجیب اویسی صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا  ۔ جو قومی اسمبلی میں حلقہ این اے ۱۶۸بہاولپور کی نمائندگی کرتے ہیں  اور گذشتہ سال ستمبر سے وزارت ریلوۓ کے پارلیمانی سیکریٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہےہیں ۔ان کاتعلق ایک معزز سیاسی ،سماجی اور روحانی  خاندان سے ہے ۔ان کے والد گرامی  میاں نجیب الدین اویسی صاحب بھی ایک معروف سیاستدان ہیں ۔گو مجھے سیاستدانون اور حکومتی عہدیداروں سے ملنے کا بہت کم ہی  موقعہ ملتا ہے ۔اس سے قبل میں انہیں میڈیا پر  قومی اسمبلی کے فلور پر علاقے اور خطے کی نمائندگی کرتے ہوۓ دیکھ چکا تھا ۔ مجھے انہیں اس تقریب میں دیکھ کر اور اس باوقار اور تعلیم یافتہ  نوجوان سے مل کر بےحد خوشی ہوئی کہ اب ہماری سیاست کی باگ دوڑ  ایسے نوجوان سیاست دان سنبھال چکے ہیں ۔جن  کے وژن نے دل کو بے حد متاثر کیا جن کی گفتگو میں فہم ،لہجے میں شائستگی اور نظریے میں خلوص نمائیاں تھا ۔گو ہماری سیاست میں ایسے اچھے  سیاستدان اور عہدیداران بہت کم کم دکھائی دیتے ہیں جو محض نعرۓ بازی یا اقتدار کی خواہش کی بجاۓسنجیدہ اصلاحات ،عوامی بہبود اور فکری ارتقاء کے خواب لیے ہوتے ہیں ۔یہ ملاقات نہ صرف فکری طور پر خوشگوار تھی بلکہ ایک ایسی امید کی کرن بھی تھی جو اس منتشر اور مایوس کن سیاسی منظر نامے میں روشن مستقبل کا اشارہ دیتی ہے ۔ان کی باتوں میں بصیرت تھی ،وہ محض کتابی نہیں بلکہ عملیت پسندی پر مبنی تھی ۔نوجوانوںاور خصوصی دیہی نوجوانوں کے مسائل ،تعلیمی اصلاحات ،گورننس میں شفافیت او عوامی رابطے کی اہمیت جیسے موضوعات   پر ان کی آرا ءسن کر یقین ہوا کہ اگر ایسی سوچ رکھنے والے افراد فیصلہ سازوں کی صف میں شامل ہوں تو سیاست کا رخ واقعی بدلا جا سکتا ہے ۔یہ ملاقات ایک یاددھانی تھی کہ ہمارۓ معاشرۓ میں ابھی بھی وہ روشن دماغ موجود ہیں جو مایوسی کے اندھیروں میں چراغ جلانے کا حوصلہ اور ہمت رکھتے ہیں ۔ان سے یہ چھوٹی سی ملاقات محض رسمی نہیں تھی بلکہ فکری اور عملی سطح پر کئی پہلووں کا احاطہ کرتی ہوئی ایک بامقصد مکالمے کی صورت اختیار کر گئی ۔خصوصی زراعت ،زمیندار طبقے کے مسائل اور دہی معیشت کا بحران ان کی گفتگو کا مرکزی موضوع رہا ۔یہ جان کر خوشی ہوئی کہ وہ دیہی علاقوں کی زرخیزی کو محض زمین کی پیدوار نہیں بلکہ ملک کی معیشت کا بنیادی ستوں اور ریڑھ کی ہڈی کی طرح اہم سمجھتے ہیں ۔انہوں نے جن مسائل کا ذکر کیا جن میں کھاد اور بیج  کی قلت ،نہری پانی کی  قلت اوراس کی منصافانہ تقسیم ،،جدید رزعی ٹیکنالوجی تک محدود رسائی  اور فصلوں کی مناسب قیمتوں کی عدم دستیابی پر بات کی اور ان کو زمیندار طبقے کی روزمرہ کی حقیقت بتایا جنہیں اکثر نظر انداز کردیا جاتا ہے ۔ان کا یہ کہنا کہ “زرعی خود کفالت صرف فصل اگانے سے نہیں بلکہ کسان کو زندہ رکھنے سے ممکن ہے ” دیر تک میرۓ ذہن میں گونجتا رہا  اور  زراعت ہماری ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے ہم اسے ٹوٹنے نہیں دیں گے ۔ایسی قیادت جو صرف تقریر نہیں تدبیر بھی رکھتی ہو ! جو صرف وعدۓ نہیں وژن بھی دیتی ہو ! اور جو صرف ایک حلقے نہیں پورے خطے کو دیکھنے کی سکت رکھتی ہو  ! وہ سیاست میں ہوا کے خوشگوار جھونکے کی مانند ہے ۔ قائداعظم کی سماجی سکاٹس تنظیم  پاکستان سوشل ایسوسی ایشن  پنجاب کے صوبائی صدر ڈاکٹر عبدالرحمان ناصر نے ان سے زرعی مسائل بیان کئے تو انہوں نے باری باری ہر مسئلے کی وضاحت نہایت خوبصورتی سے کردی ۔جبکہ سیاسی و سماجی خاتون رہنما اور کاشتکار محترمہ آسیہ کامل نے ان کی زرعی شعبہ میں ذاتی دلچسپی پر شکریہ ادا کیا ۔میں نے ان کی توجہ درختوں  اورجنگلات کی کٹائی اور علاقے میں مزید شجر کاری کی ضرورت پر دلائی ۔

ان کا نقطہ نظر نہ صرف زمینی حقائق پر مبنی تھا بلکہ حل کے لیے پالیسی سطح پر تجاویز بھی رکھتا تھا ۔دیہی نوجوانوں کو زرعی تعلیم سے جوڑنے ،سبسڈی کو شفاف نظام کے تحت تقسیم کرنے اور جدید تقاضوں کے مطابق زراعت کو خودکفیل بنانے کے خواب نے ثابت کیا کہ وہ ایک زمیندار  اور سیاست دان ہی نہیں بلکہ ایک دور اندیش فکری سوچ کے حامل رہنما بھی ہیں۔ایسے نوجوان رہنما اگر پارلیمان میں آواز اٹھائیں اور اسے   پالیسی میں ڈھلنے کامیاب ہو ں تو پاکستان کا زرعی مستقبل سنور سکتا ہے ۔یہ ملاقات اس بات کا ثبوت تھی کہ اب بھی سیاست میں ان جیسے کئی چراغ روشن ہیں جو صرف اقتدار کے ایوانوں کو نہیںبلکہ کھیتوں ،کسانوں خصوصی نوجوانوں کو بھی روشنی دینے کا خواب رکھتے ہیں ۔ انہوں نے جنوبی پنجاب کے مسائل جیسے خود مختاری اور بیورکریسی کی رکاوٹوں پر بھی گفتگو کی ۔انہوں نے منصافانہ ٹیکسیشن اور جامع اقتصادی ترقی کی حمایت کی تاکہ اس خطے کے عوام کو مساوی مواقع میسر آسکیں ۔انہوں نے بتایا کہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد پاکستان آکر انہوں نے خود کچھ رقبہ ذاتی طور پر کاشت کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ کسانوں اور زراعت کی مشکلات کو محسوس  کر سکیں ۔یہی وجہ ہے کہ انہیں زراعت کو درپیش مسائل کا ادراک بڑی اچھی طرح ہیں ۔انہوں نے اس بات کو خوش آئند قرار دیا کہ زرعی ماہر پروفیسر مدحت کامل حسین جیسے اعلی تعلیم یافتہ لوگ اب اس زرعی  میدان میں رہنمائی  اور تربیت کے لیے موجود ہ ہیں اور نت نئے  زرعی تجربات کر رہے ہیں ۔میاں عثمان نجیب اویسی نے  دیہی معیشت کو ملکی معیشت کی بنیاد قرار دیتے ہوۓ  زرعی پالیسی میں انقلابی اصلاحات کا عندیہ دیا ۔

یادرہے کہ میاں عثمان نجیب اویسی کی قیادت میں دیہی علاقوں میں تعلیمی اور صحت کی سہولیات کی بہتری کے لیے پہلے ہی کام کیا جارہا ہے ۔ان کی کاوشوں سے ظاہر ہوتا ہے  کہ وہ اپنے حلقے کے عوام کی فلاح وبہبود کے لیے مخلصانہ کوشش اور جدوجہد  کر رہے ہیں اور عملی اقدامات کے ذریعے مسائل کا حل نکالنے پر یقین رکھتے ہیں ۔یہ ملاقات میرے لیے نہایت متاثر کن تھی اور میں امید کرتا ہوں کہ میاں عثمان نجیب اویسی کی نوجوان قیادت میں یہاں کے دیہی علاقوں کے مسائل ضرور حل ہوں گے اور زراعت کے شعبے میں مثبت تبدیلیاں آئیں گی ۔

میاں عثمان نجیب اویسی ان چند لوگوں میں سے ہیں نہ صرف بات کرتے ہیں بلکہ حقیقت اور سچائی سے جڑی بات کرتے ہیں ۔میں اس ملاقات کو صرف کسی ایک شخص یا سیاست دان سے تعارف نہیں بلکہ ایک امید سے شناسائی کہوں گا  اور مایوسی کے گھپ اندھیروں میں روشنی کی ایک کرن کہوں گا ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.