اسٹا ک مارکیٹ کی بلندی اور مہنگائی میں ریکارڈ کمی کی خبریں

تحریر ؛۔ جاویدایازخان

6

احساس کے انداز

پاکستان کے تمام ٹی وی چینل آج کل اسٹاک مارکیٹ کی بلندی اور مہنگائی میں ریکارڈ کمی کی خبریں نشر کر رہے ہیں ۔جنہیں دیکھ اور سن کر خوشی تو بہت ہوتی ہے لیکن بے یقینی کی کیفیت بھی رہتی ہے ۔ گو اسٹاک مارکیٹ سے تو عام آدمی کچھ زیادہ واقفیت نہیں رکھتا اور شاید نہ ہی اسٹاک مارکیٹ اس کے کسی مسئلہ کا حل ہے؟ لیکن مہنگائی سےتو اسے ہر روز ہی واسطہ پڑتا ہے اور شاید یہی اس کا اصل مسئلہ بھی ہوتا ہے ۔ حکومتی دعویٰ کے مطابق شاید کچھ خاص معیشت جاننے والے لوگوں کو یہ مہنگائی کی کمی نظر آرہی ہو مگر عام آدمی کو مہنگائی میں کہیں کوئی کمی دکھائی نہیں دیتی بلکہ اس کے روزمرہ کی ضرورت کی اشیاء اور ان کی قیمتیں آۓ دن بڑھ رہی ہیں ۔جبکہ حکومتی ذرائع کے مطابق مہنگائی ساڑھے تین سال کی کم ترین سطح پر آگئی ہے ۔ پاکستان اسٹاک مارکیٹ میں بدستور تیزی کا رجحان ہے ۔اسٹاک مارکیٹ میں تاریخی تیزی کی بہت سی وجوہات تو پیش کی جا رہیں تاہم اسٹاک مارکیٹ کی یہ تیزی اس وقت ہو رہی ہے جب پاکستانی معیشت مشکلات اور بحرانوں کا شکار ہےاور جہاں ملک کا صنعتی شعبہ ایک طرف بڑے مصائب میں گھرا ہوا ہے۔ ایسے میں اسٹاک مارکیٹ کی اس تیزی کے عوامل جو بھی ہوں یہ قومی معیشت کے لیے حکومتی کامیابی کا ایک اچھا اور مثبت اشارہ ضرور ہے جسے سراہا جانا چاہیے ۔لیکن دوسری جانب ایک عام پاکستانی مہنگائی کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے جس میں تازہ ترین ہفتوں میں پیٹرول ،گیس اور بجلی کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ بھی شامل ہے۔ ملک میں پیٹرولیم مصنوعات اور اشیائے خوردونوش کی قیمتیں بھی ابھی تک اپنی بلند سطح پر موجود ہیں۔ ایسے میں اسٹاک مارکیٹ میں یہ ریکارڈ اضافہ کیا پاکستانی معیشت میں ترقی کی عکاسی کرتا ہے اور کیا اس ترقی سے عام پاکستانیوں کو بھی کوئی فائدہ ہوا ہے یا ہو سکتا ہے ؟عجیب سی صورتحال ہے ایک جانب تو غریب کا چولہا بجھ رہا ہے اور دوسری جانب اسٹاک مارکیٹ اوپر جارہی ہے ۔آخر ماجرہ کیا ہے ؟ مہنگائی ،بےروزگاری ،بجلی اور گیس کے بل تو بظاہر بڑھ رہے ہیں ۔سوال یہ ہے کہ کیا اسٹاک مارکیٹ میں تاریخی تیزی ملکی معیشت کی صیح عکاسی کرتی ہے ؟ اور اس غیر معمولی تیزی سے عام آدمی کو کوئی فائدہ بھی پہنچ رہا ہے ؟ یا اس سےصرف ایک محدود طبقے کو فائدہ ہوتا ہے ؟ کہا یہ جاتا ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں اس تیزی سے ملک میں نئی سرمایہ کاری آنے سے ملازمتوں کی مواقع پیدا ہوسکتے ہیں اور ساتھ ساتھ پاکستانی اسٹاک مارکیٹ میں تیزی سے دیگر اندرونی اور بیرونی سرمایہ کار وں کو بھی رغبت ملے گی کہ وہ اپنا سرمایہ پاکستان میں لگائیں ۔حقیقت یہ ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں پاکستان کی آبادی کا ایک فیصد بھی انویسٹ نہیں کرتا اس لیے یہ خوشی صرف ان چند لاکھ لوگوں تک محدود ہے جو وہاں سے منافع کما رہے ہیں ۔جبکہ اس میں بھی چھوٹے سرمایہ کار کے لیے بھی کچھ زیادہ کشش نہیں ہوتی ہے ۔اسٹاک مارکیٹ میں اسقدر بلندی اور تیزی ملک کی کمزور معیشت کے لیے ایک خوش آئند خبر ضرور ہے ۔لیکن کیا یہ غریب عام کے مسائل کا حل بھی ہو سکتی ہے ؟ ایک عام غریب کے لیے مہنگائی کی شرح میں کمی کی یہ خبر تب ہی قابل قبول ہو سکتی جب اس کی ضرورت کی روزمرہ استعمال کی بنیادی اشیاء کی قیمتوں میں کمی دکھائی دے گی ۔جو بظاہر کہیں نظر نہیں آرہی ہے ۔غریب کی بنیادی ضرورت کی اشیاء جیسے بجلی ،گیس ،پیٹرولیم مصنوعات ،روزمرہ کے کھانے پینے کی اشیاء ، ادویات اور تعلیم کے اخراجات میں کمی سمجھی جاتی ہے ۔آج بھی ان اشیاء کی قیمتیں ہی کمی کی متقاضی ہیں ۔بعض ماہرین کا خیال ہے کہ مہنگائی میں کمی کا مطلب قیمتوں کا گھٹنا نہیں بلکہ بڑھنے کی رفتار میں کمی لانا ہوتا ہے اور اسی ٹھہراو کو عوام کے لیے مثبت علامت سمجھنا چاہیے ۔لیکن ناجانے کیوں ایسا بھی محسوس نہیں ہو رہا ہے ؟ مہنگائی کی بڑھنے کی رفتار اور شدت بھی جوں کی توں ہی موجود ہے ۔یہاں تک کہ اپنے ملک میں پیدا ہونے والی اجناس اور سبزی کی قیمت بھی بہت بڑھ چکی ہے ۔
میرا داماد اپنا چار مرلہ کا ایک چھوٹا سا گھر بنوانے کی کوشش کر رہا ہے اس کے مطابق تین سال قبل جو سیمنٹ کی بوری چار سوروپے کی تھی اب سولہ سو روپے تک جاپہنچی ہے ۔اینٹ کی قیمتیں پانچ ہزار روپے فی ہزار سے پندرہ ہزار فی ہزار ہو چکی ہے ۔ریت کی ٹرالی دوگنی ہو گئی ہے ۔سمجھ نہیں آتا مہنگائی کم کہاں اور کیسے ہو ئی ہے ؟ مجھے اپنے کپڑے سلوانے ٹیلر کے پاس جانا پڑا تو اس نے سلائی دو ہزار شلوار قمیض کے ایک جوڑے کے مانگے جو پچھلے سال ایک ہزار ہوتے تھے ۔میں سوچ رہا تھا کہ جب تین سال قبل مہنگائی دس فیصد پر تھی تو گھی دوسو ساٹھ روپے چینی ستر روپے آٹا ساٹھ روپے چاول ایک سوس دس روپے اور دالیں ڈیڑھ سو روپے کلو ہوتی تھیں جبکہ آج گھی پانچ سو پچاس روپے ،چینی ایک سو پچپن روپے ،آٹا ایک سو بیس روپے ،چاول تین سو بیس روپے اور دالیں چارسوروپے کلو جبکہ پیٹرول دو سو نوۓ روپے لیٹر پر مل رہے ہیں تو مہنگائی کم کیسے اور کہاں ہوئی ؟ تمام تعمیراتی سامان کئی گنا مہنگا ہو چکا ہے ۔

مجھے گذشتہ روز اپنی مہینہ بھر کی ادویات لینے جانا پڑا تو حیرت ہوئی کہ پچھلے تیں سال میں بجاۓ گھٹنے کے ہر دوائی یہاں تک کہ انسولین کی قیمتیں بھی کئی سو فیصد بڑھ چکی ہیں ۔بعض ادویات تو تین سے چار سو فیصد بڑھ چکی ہیں ۔تین سال قبل جو دوائی سو روپے کی تھی اب چار سو روپے میں دستیاب ہے ۔ ایک جانب ادویات بہت مہنگی ہو کر دسترس سے باہر ہو چکی ہیں تو دوسری جانب اب سرکاری ہسپتال میں ادویات میسر نہیں ہیں ۔ میں پورے شاپنگ پلازہ میں وہ اشیاء تلاش کرتا رہا جن کی قیمتیں کم ہوئی ہوں ۔مگر ناکام رہا اور قیمتوں میں کمی کہیں نظر نہیں آئی ۔ہر چیز پہلے سے مہنگی ہو چکی ہے ۔گندم کے نرخ کم ہونے کے باوجود بیکری کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ پریشان کن ہے ۔گوشت ،انڈے ،مرغی سبزی ،پھل سب کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں ۔ حکومت کے مقرر کردہ نرخ نامے تو ویسے ہی بےفائدہ ہوچکے ہیں ۔میری گھریلو ملازمہ ٹی وی کی خبریں سن کر کچھ ایڈونس رقم مانگ رہی تھی کہنے لگی کہ سنا ہے کہ مہنگائی میں بے حد کمی آگئی ہے کیوں نہ کچھ خریداری کر لو کہیں دوبارہ ریٹ نہ بڑھ جائیں ؟ مگر دوسرے ہی روز بازار سے مایوس لوٹی اور پوچھنے لگی بھائی یہ ٹی وی چینل پر اعلان شدہ کمی بازار میں تو نظر نہیں آئی ۔بتائیں کہاں جائیں ؟
ہمارے وزیر اعظم نے گذشتہ دنوں پوری قوم کو ہفتہ وار مہنگائی کی شرح میں کمی کے بعد ساڑھے تین فیصد آنے پر مبارکباد دی ہے اور مزید کمی لانے کی نوید بھی سنائی ہے لیکن یہ نہیں بتایا کہ یہ کمی کہاں اور کن چیزوں میں آئی ہے اور اگر واقعی کمی آئی ہے تو اس کمی کے اثرات عام آدمی تک کیوں نہیں پہنچ رہے ہیں اور اشیاء ضروریہ کی قیمتیں گھٹ کیوں نہیں رہی ہیں ؟ یہ مہنگائی میں کیسی کمی ہے جس کی عوام کو کانوں کان خبر نہیں ہو پائی ؟عجیب ستم ظریفی ہے کہ ملکی معیشت کی ترقی کے لیے خبریں تو دونوں ہی اچھی ہیں لیکن اسٹاک مارکیٹ تو اوپر جاتی دکھائی دیتی ہے مگر مہنگائی نیچے آتی ذرا بھی دکھائی نہیں دیتی ۔ممکن ہے کہ بڑے بڑے ماہر اقتصادیات اور معیشت دان مہنگائی میں اس موجود کمی کو کسی خاص زاویے سے کہیں دیکھ رہے ہوں لیکن عام بھولی بھالی عوام مہنگائی میں اس تاریخی کمی کو نہ تو دیکھ پا رہی ہے اور نہ ہی محسوس کر پارہی ہے ۔یہ ٹھیک ہے کہ حکومت ملکی معیشت کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے مثبت اقدامات کر رہی ہے لیکن عام آدمی ان اقدامات کو صرف اسی صورت میں قبول کرے گا جب اسے اپنی زندگی میں ان اقدامات کے مثبت اثرات اور نتائج دکھائی دیں گے ۔جب ان کے گھر کا بجٹ بڑھتی مہنگائی کی لہروں سے محفوظ ہو سکے گا۔اس کے گھر کا چولہا آسانی سے جلنے لگے گا۔جب حکومتی نرخ ناموں پر عمل ہوتا نظر آۓ گا ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.