پیغام امن ومحبت :مفتی عنایت ہزاروی کی کتب کی رونمائی
تحریر۔۔عاصم نواز طاہرخیلی
میں گزشتہ کل ایبٹ آباد لندن پبلک سکول اینڈ کالج میں شام کے وقت مفتی عنایت ارحمان ہزاروی کی تین کتب ( مانکیالی زبان، تذکرہ مانکیال اکوزئی یوسف زئی، مختصر تاریخ قبیلہ مانکیال یوسف زئی ) کی رونمائی و پزیرائی کے لیے سجائی گئی تقریب میں مدعو تھا۔ اس مادی دنیا میں ایسی ادبی تقاریب کا انعقاد گھٹی ہوئی فضا میں باد سحری جیسی ہے۔ ایسی تقاریب و مشاعرے معاشرے میں علم و ادب کی خدمت کے ساتھ ساتھ زہنی و جسمانی کھچاؤ والی فضا میں شدت کو ختم کر کے سکون آوری کا سبب بھی بنتے ہیں۔ قارئین کی معلومات کے لیے اس تقریب کا احوال مختصراََ پیش خدمت ہے۔ایبٹ آباد میں بزم مصنفین ہزارہ کے زیر اہتمام مفتی عنایت الرحمان ہزاروی کی تین کتب کی تقریب رونمائی و پذیرائی ہوئی جو ہزارہ کے قلمکاروں کا اک شاندار اکٹھ تھی۔ ڈاکٹر قمر زمان اعوان کی خوش اسلوب نظامت نے پروگرام کو چار چاند لگا دیے۔ اس تقریب کے مہمان خصوصی ڈاکٹر عطاء الرحمٰن اور صدر محفل مولانا محمد اعظم قادری تھے۔ مفتی عنایت الرحمان ہزاروی کی کتب پر ڈاکٹر عادل سعید قریشی، اعجاز احمد، محمد کریم علوی قادری، پروفیسر ممتاز حیدر، کرنل (ر) عبد الوحید خان اورڈاکٹر افضال خان نے مقالاجات پیش کیے جن میں مفتی عنایت الرحمان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اس کے علاوہ سید ظفر شاہ ترمذی، عبدالرحیم بھٹی اور مقالاجات پیش کرنے والی شخصیات کو شیلڈز و سرٹیفیکیٹ بھی پیش کیے گئے۔پروگرام میں کشمیر، مانسہرہ، ایبٹ آباد، اٹک، مردان، بالاکوٹ اور ہری پور کی کئ ادبی شخصیات نے شرکت کی اور محفل کو رونق بخشی۔ عبد الوحیدخان، پروفیسر ملک ناصر داٶد، محمد کریم علوی قادری، عبدالوحید بسمل، ڈاکٹر عادل سعید قریشی، شاکر عنقا، نوید الرحمن ساغر، سعید الرحمن، سراج احمد تنولی، سید رحمن شاہ، صادق امین، ملک حافظ جمشید، عبدالرحیم بھٹی، مولانا محمد اعظم قادری، فخر زمان سرحدی، سید ظفر شاہ ترمذی، حافظ لقمان عزیز ہزاروی، ڈاکٹر منصف سحاب خان، ڈاکٹر قمر زمان اعوان، مولانا سجاد ہزاروی، مولانا احسان حیدر، منظور سرحدی، عبید الرحمان سلیمانی، محمد زبیر اعوان ، ملک عظیم ناشاد اعوان، محمد ظہیر، پرنسپل ادارہ محمد اخلاص ،عبید الرحمان سلیمانی،محمد نعمان عزیز ہزاروی اور دیگر کئی قد آور شخصیات کا یہ اکٹھ گلستانِ ہزارہ کے مہکتے پھولوں کی محفل تھی جو مدتوں یاد رکھی جائے گی۔
ایسی ادبی تقاریب وقت کی اہم ضرورت ہیں کیونکہ ان کے ذریعے ہر طرف محبت اور امن کا پیغام جاتا ہے۔ یہی پیغامِ امن و محبت اک بیج کی طرح پھل پھول کر اک تناور اور سایہ دار ہرے بھرے درخت میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ ایسی ادبی تقاریب کی ضرورت اسلئے بھی انتہائی زیادہ ہے کہ ہم بہت تیزی سے اّن کلچرڈ ہوتے جارہے ہیں۔ ادب کے رنگ بکھیر کر ہم زندگی کی روشن قدروں کی آبیاری میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ اہسے پروگراموں کے انعقاد کا مطلب شر، افراتفری، بدتمیزی اور ہر قسم کے منفی طرز عمل کو پھلنے پھولنے سے روکنا ہے۔ دعا ہے کہ ہمارے معاشرے میں لکھاریوں کی ایسی شگفتہ محافل سے ہر طرف امن و سکون کے چشمے پھوٹیں۔