گرد وغبار جھاڑیے

1

احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان .

کہتے ہیں کہ ایک سنگ تراش سے کسی نے پوچھا تم ایک پتھریلی چٹان میں سے ایک خوبصورت مجسمہ کیسے تخلیق کر لیتے ہو ؟ تو اس سنگ تراش نے کہا کہ سراپا اور خوبصورتی تو اس پتھر کی چٹان میں پہلے سےہی موجود ہوتی ہے میں تو بس اس چٹان سے فالتو اور غیر ضروری حصے الگ کرتا ہوں اور اس کی اصل شکل اور خوبصورتی سامنے لے آتا ہوں ۔یہ اس رب کی مجھ پر عنایت ہے۔ اس نے یہ نعمت مجھے عطا کی ہے اور مجھ میں یہ کمال رکھا ہے کہ میری آنکھ کسی چٹان یا پتھر میں چھپی ہووئی خوبصورتی کو دیکھ لیتی ہے ۔سمجھ والے کہتے ہیں کہ انسان بھی ایسی چٹان کی مانند ہوتا ہے جس کی خوشیاں رب کی بےپناہ نعمتوں کی شکل میں اس کے اندر بھی چھپی ہوتی ہیں اسے بس ان پر چھائے فالتو اور غیر ضروری تفکرات کا گرد و غبار صاف کرنا ہوتا ہے۔ہمارے پاس اللہ کی نعمتوں کی شکل میں خوشیوں کی لامحدود چیزیں چھپی ہوتی ہیں لیکن ہمارے پاس ان خوشیوں اور نعمتوں کو دیکھنے اور محسوس کرنے والی سنگ تراش جیسی آنکھ اور بصارت نہیں ہوتی اور نہ شاید سنگ تراش جیسا وہ فن ہی ہوتا ہے جو ان نعمتوں اور خوبصورتیوں کو سامنے لا سکے ۔آئیں ذرا اپنی ذات کی چٹان سے تفکرات کا گرد وغبار جھاڑ کر اپنی زندگی کی خوشیوں اور رب کی نعمتوں کو تلاش کریں اور اپنے آپ میں چھپا ہوا شکر گزار انسان سامنے لائیں ۔یقینا” اپنی ذات اور زندگی پر اللہ تعالیٰ کے پناہ احسانات جان کر آپ خود بھی حیرت زدہ رہ جائیں گے ۔میرے اباجی کہتے تھے کہ چالیس سا ل کی فوجی زندگی اور دوسری جنگ عظیم سے لیکر مشرقی پاکستان کی جنگ تک پانچ لڑائیاں لڑ کر بھی اگر میں زندہ اور صیح سلامت ہوں تو اس میں میرا کیا کمال ہے یہ تو اس ذات کی رحمت ہے جو ہر حال میں ہماری حفاظت کرتی ہے ۔گولی میرے کان سے گزرنے کی بجاۓ میرے سینے یا پیشانی پر بھی تو لگ سکتی تھی کبھی ایسا بھی ہو سکتا تھا کہ کسی وجہ سے پیرا شوٹ نہ کھل سکے ۔اور پھر سمندر کی لہریں کب انسان کے بس میں ہوتی ہیں جو بڑے سے بڑے جہاز ڈبو دیتی ہیں ۔اللہ کے بے پناہ احسانات اور عطا کردہ نعمتوں کا احساس اور ادراک ہو جانا ہی شکر گزاری کے لیے سب سے ضروری ہے۔آئیں خود پر سے خود غرضی کے جمے گرد وغبار کو جھاڑ کر اپنے اندر سے اس شکرگزار انسان کے سراپے کو تلاش کریں جو سب سے زیادہ خوبصورت ہوتا ہے ۔شکر بنیادی طور پر ایسی ہی بےشمار پوشیدہ نعمتوں کی قدر اور ادراک کرنے کو کہتے ہیں اور ان نعمتوں کا شکر ہی اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں اضافے کا باعث بنتاہے ۔شکر ادا کرنے کے لیے نعمتوں کا احساس پہلی شرط ہے پھر اس شکر کو زبان سے اور عمل سے ثابت کرنا ہوتا ہے ۔انسان کے پاس ان گنت ایسی نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بغیر مانگے عطا کی ہوئی ہیں اور جن کا ہمیں ادراک ہی نہیں ہوتا ۔بےشک زندگی میں مسلسل کامیابی کا راز انہیں نعمتوں کی شکر گزاری میں ہی پوشیدہ ہے ۔آئیں اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ لاتعداد نعمتوں میں سے چند کے بارے میں سوچیں جو ہمیں بن مانگے ہی مل جاتی ہیں ۔
ذرا غور کریں کہ آپ زندہ اور صحت مند ہونے کے ساتھ ساتھ اچھی شکل وصورت اور رنگت کے مالک بھی ہیں تو یہ سب کس کی مہربانی ہے ؟ اگر آپ بول سن اور چل پھر سکتے ہیں تو یہ صلاحیت سب کو تو میسر نہیں ہے اور یہ بھی کسقدر نعمت اور خوشی کی بات ہے کہ آپ ایک اچھا رزق کما رہے ہیں ۔یقین کریں کہ اس میں آپ کی کوشش ،ذہانت یا صلاحیتوں کا کوئی خاص کمال نہیں ہے ۔رزق کا ملنا آپکی قابلیت نہیں بلکہ رب کی عطا ہے ۔جبکہ بڑے بڑے عقل کے پہاڑ رزق کے لیےدنیا کی خاک چھانتے دکھائی دیتے ہیں ۔ اگر آپ کسی بڑی بیماری سے بچے ہوئے ہیں تو اس میں آپ کی خوراک یا حفظانِ صحت کی اختیار کردہ احتیاطی تدابیر کا کوئی دخل نہیں۔ ایسے بہت سے انسانوں سے قبرستان بھرے ہوئے ہیں جو سوائے منرل واٹر کے کوئی پانی نہیں پیتے تھے اور بےپناہ ادویات استعمال کرنے کی استعداد رکھتے تھے ۔مگر پھر اچانک انہیں برین ٹیومر، بلڈ کینسر یا ہیپاٹائٹس سی ،کرونا کی تشخیص ہوئی اور وہ چند دنوں یا لمحوں میں دنیا سے کوچ کر گئے۔اگر آپ صاحب اولاد ہیں تو اس میں آپ کا کیا کمال ہے ؟ ایک نظر ان کی محرومی پر ضرور ڈالیں جو اس نعمت کے لیے ترس رہے ہیں ۔اگر اللہ نے آپکو بیٹوں سے نوازا ہے تو ایک نظر ان پر ڈالیں جو بیٹوں کی خواہش لیے دنیا سے چلے جاتے ہیں ۔اگر آپ کے تمام بچے حیات ہیں تو ان والدین کے بارے میں سوچیں جو کئی بچوں سے محروم ہو چکے ہیں ۔ اگر آپ کے بیوی بچے سرکش نہیں بلکہ آپ کے تابع دار و فرمانبردار اور محبت کرنے والے ہیں اور اپنے خاندان میں یہ بیٹے بیٹیاں مہذب، باحیا و با کردار سمجھے جاتے ہیں، اگر آپکے گھر کوئی فرد کسی نشے اور منشیات کا شکار نہیں ہے تو ان گھروں کی جانب دیکھیں جو منشیات کی باعث تباہی سے دوچار ہیں ۔تو اس کا سب کریڈٹ بھی آپ کی تربیت کو قطعی نہیں جاتا کیوں کہ بیٹا تو نبی کا بھی بگڑ سکتا ہے اور بیوی تو پیغمبر کی بھی نافرمان ہو سکتی ہے۔بھائی تو نبی کے بھی انہیں کنویں میں قید کر سکتے ہیں ۔بےشک یہ اس ذات کا ہی کرم ہے جو ان آزمائشوں سے ہمیں محفوظ رکھتی ہے ۔
اگر کبھی آپ کی جیب نہیں کٹی، پرس نہیں لٹا ،کبھی موبائل نہیں چھینا گیا تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ آپ بہت چوکنّے اور ہوشیار ہیں ۔بلکہ اس سے یہ ثابت ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے بدقماشوں ،جیب کتروں اور رہزنوں کو آپ کے قریب نہیں پھٹکنے دیا تاکہ آپ ان کی ضرر رسائیوں سے محفوظ رہیں ۔اگر آپکو سانپ بچھو یا کوئی زہریلا جانوراب تک نہیں کاٹ پایا تو اس میں آپ کی کیا کاریگری ہے ؟ اگر آپ خوش قسمتی سے ہوائی جہاز،ٹرین ،بس یا کار اور موٹر سایکل پر اپنا سفر بحفاظت کرتے ہیں اور کسی بھی حادثے کا شکار نہیں ہوے تو سوچیں کہ آپ میں کیا ایسی خوبی ہے ؟ ورنہ تو روزآنہ کتنے ہی لوگ مختلف حادثات کا شکار ہو رہے ہیں ۔میرے ایک دوست کو صرف چند دن بصارت سے محروم رہنا پڑا تو اسے احساس ہوا کہ دیکھنے کی صلاحیت کتنی بڑی نعمت ہے وہ چند دن اس کے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھے ۔ تو ذرا سوچئے ان بصارت سے محروم لوگوں کے بارے میں جو پیدائشی اس صلاحیت کے بغیر زندگی گزار رہے ہیں یا جو حادثاتی طور پر بینائی کھو بیٹھے ہیں ۔لاتعداد نعمتیں ایسی ہیں جن کو بیان میں نہیں لایا جاسکتا ۔ذرا سوچوں کا گرد وغبار جھاڑیں تاکہ اپنی اصل خوبصورتی آپ کو بھی دکھائی دینے لگے۔آپ کی خوش نصیبی اور خوبصورتی صرف یہ نہیں کہ آپ کو زندگی میں سب کچھ ملے بلکہ خوش نصیبی اور انسانی سراپے کی خوبصورتی یہ ہے کہ آپ کسی حال میں بھی ہوں لیکن آپ کا دل مطمئن ہو اور آپ اپنے رب کے شکر گزار ہوں ۔

جو لوگ اپنے اندر چھپی نعمتوں کی موجودگی سے آشکار ہو جاتے ہیں اور اپنے پاس موجود نعمتوں کی خود کویاددھانی بھی کرواتے رہتے ہیں وہ ناصرف خوش رہتے ہیں بلکہ شکر گزاری کی عادت کو معمول بنا لیتے ہیں ۔وہی لوگ ہیں جو اپنے آپ کو اور اپنے رب کو پا لیتے ہیں ۔کیونکہ شکر وہ جذبہ احسان شناسی ہے جس سے انسان کے قلب کا ہر لمحہ معمور رہنا انسانیت کی معراج عطاکرتا ہے ۔اپنی ذات سے گرد وغبار کی دھول جھاڑ کر مزید خوبصورت بننے کے لیے رب تعالیٰ کی نعمتوں اور اسکے احسانات کا شکر ادا کرنا کسی عبادت سے کم نہیں ہے ۔یاد رہے کہ اس طرح کی نعمتیں سدا قائم نہیں رہتیں نہ جوانی رہتی ہے نہ رعب ودبدبہ ،نہ شان وشوکت اور نہ صحت اس لیے شکوہ نہیں شکر زیادہ کیا کریں کہ اس سے زندگی آسان ہو جاتی ہے ۔نعمتوں کا شکر صرف زبانی نہیں عمل سے بھی دکھائی دینا چاہیے ۔اس لیے ضروری یہ ہے کہ ان نعمتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوۓ دوسروں کا بھی خیال رکھیں جو ان نعمتوں سے محروم ہیں ۔یقینا” یہ شکر ادا کرنے کا بہترین طریقہ ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.