رات مجھے اچھی لگتی ہے

11

منشا قاضی

حسب منشا

چمکتا ہوا دن ہی نہیں کالی رات بھی حسین ہوتی ہے تم دیکھتے نہیں رات کے کالے آنچل پر تارے کتنے پیارے لگتے ہیں ۔ ارض و سما کے درمیان ایک اور دنیا بھی آباد ہے ۔ اور وہ دنیا رات ہے جو تھکے ہوئے انسانوں کو اپنی آغوش میں ۔ ماں کی طرح لے لیتی ہے ۔ دنیا کے جتنے تخلیق کار ہیں انہوں نے جتنی تخلیق کی ہے وہ رات کے سناٹے میں ہی کی ہے ہمارے ہم دم و دمساز جناب توقیر احمد شریفی کا وجود کسی بھی معاشرے میں ایک روشن چراغ کی حیثیت رکھتا ہے وہ دوستوں کو کوئی نہ کوئی نوید مسرت دیتے رہتے ہیں اس دفعہ انہوں نے ایک ایسی نوید دی جو رخشندہ بھی تھی اور درخشندہ بھی ۔ رخشندہ نوید اس دور کی عظیم شاعرہ اور بے شمار محاسن کا مجموعہ ہیں ان کا تازہ ترین مجموعہ کلام رات مجھے اچھی لگتی ہے کی تقریب رونمائی سی ٹی این فورم کے زیر اہتمام اور ایگزیکٹو ممبر جناب توقیر احمد شریفی کی میزبانی میں انعقاد پذیر ہوئی رخشندہ نوید کے تازہ مجموعہ کلام کا نام رات مجھے اچھی لگتی ہے ۔ رخشندہ نوید نے عشق کو بھی ساتواں عجوبہ قرار دیا ہے عجوبے تو بہت سے ہیں لیکن انسان سے بڑا کوئی عجوبہ نہیں رخکشندہ نوید کا اپنا ایک معیار ہے اور وہ معیاری لوگوں کو ہی پسند کرتی ہے ڈاکٹر نجیب جمال کی صدارت میں ہونے والی یہ تقریب اپنی نوعیت کی بہت خوبصورت تقریب تھی جس میں مہمان خصوصی جناب حفیظ خان ۔ مہمان خاص جناب خالد شریف ، محترمہ نیلم احمد بشیر ، اعجاز رضوی، غافر شہزاد ، سلمہ اعوان ، محترمہ شاہدہ دلاور جس کی زبان کے سامنے نہ دہقاں کا ہل چلے ۔ آج کی یہ تقریب فرحت اور طاقت کا حسین امتزاج تھی جس میں بلا قیمت دوا کا متبادل موجود تھا اور ٹوٹے ہوئے دلوں کی یہ دوا بڑی سریع الاثر ثابت ہوئی ۔ شوق ، ولولہ، جذبات کی گرمی اور فکر و عمل کی تمازت کے بغیر منزل ہاتھ نہیں آتی اور یہ سارے ویپنز سے مسلح محترمہ رخشندہ نوید ہمارے درمیان موجود تھی ۔۔ جو اس گئے گزرے دور میں شہری سے نباہ کر رہی ہے ان کا معروف شعر جس کو یاسمین حمید نے اپنے فلیپ کے آغاز میں لکھا ہے

ہم کسی اور کے نہیں ہوں گے

شاعری سے نباہ کر بیٹھے

رخشندہ نوید کے بارے میں جس شخصیت نے بھی بات کی اس نے یاسمین حمید کی تحریر کو مستند جانا انہوں نے یہی جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے رخشندہ نوید کی غزل پڑھنے والے کو مستقل متوجہ رکھتی ہے یہ اس کی سب سے بڑی خوبی بھی ہے ایسے اشعار غیر معمولی تعداد میں ہیں جو بار بار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ ہم صرف اور صرف رخشندہ کے ہیں رخشندہ کا سگنیچر اسلوب ان کے پہلے مجموعہ ہی سے طے ہو گیا تھا یہ اسلوب تکلف اور برجستہ ہے تروتازہ ہے اور عام شعری روایت سے مختلف بھی۔

میں نے موجوں کو دیکھ کر جانا

ہاتھ میں ہاتھ رہنے والا نہیں

وہ یقینا کسی گم شدہ کائناتی سچائی کی تلاش میں نہیں ہے وہ زندگی کی چھوٹی چھوٹی سچائیوں کو فکر و خیال کی گرہوں میں الجھنے نہیں دیتی اپنے پاس حفاظت سے رکھتی ہیں اور تخلیقی وفور کے صادق لمحوں میں ان کا اظہار کرتی ہیں دنیا کو وہ کبھی محبت سے تو کبھی خفیف سی بے پرواہی سے دیکھتی ہے مجھے ذاتی طور پر ان کے اس مرحلے میں کہے ہوئے شعر بہت پسند ہیں ۔

کیوں مجھے چھوڑ کے جانے کو ہوئی ہے بے تاب

زندگی کیا میں تجھے اچھی نہیں لگتی ہوں

اعجاز رضوی کا خاکہ کیا تھا ؟ ایک بہت بڑا دھماکہ تھا جس میں رخشندہ نوید کی غزل کے یہ اشعار بڑے پسند کیے گئے

در و دیوار سے جالا نہیں جاتا اماں

مجھ سے گھر بار سنبھالا نہیں جاتا اماں

میں جو آنسو کی طرح لوٹ کے پھر جا نہ سکی

یوں تو اپنوں کو نکالا نہیں جاتا اماں

یہ غزل اعجاز رضوی کے آئینہ ادراک پر رنگ و نور کی طرح برس رہی تھی اور انہوں نے کہا کہ اس غزل نے میرے دل سے ایک بے لفظ داد وصول کی۔ میں دیکھ سکتا تھا کہ رخشندہ کی اپنی متاع ہے کہیں سے لی نہیں گئی اور یہ گمبھیر آہنگ بھی اس نے اپنے سانس کے تکلے پر خود کاتا ہے جیسے مکڑی کسی سے سیکھے بغیر اپنے جالے میں ہندسی اشکال بن سکتی ہے پھر اس کی پرگوئی کے باعث اس کے اشعار پے بے پے ادبی رسالوں میں نظر سے گزرتے رہے اور وہ پہلا تاثر کبھی تبدیل نہیں ہوا اعجاز رضوی نے کہا کہ اب رخشندہ ایک سینیئر قلم کار بن چکی ہے مہ و سال نے اس کے دل سے ابلتے ہوئے چشمے کو نہ تو گدلا کیا ہے اور نہ اس کے زور میں کچھ کمی آئی ہے ۔ رات مجھے اچھی لگتی ہے کہ مصنفہ رخشندہ نوید نے اپنا کلام سنایا اور خوب داد لی۔

نہ جانے کس طرف اب یار لوگ رہتے ہیں

سمندروں کے کہیں پار لوگ رہتے ہیں

یہ اتنا شور یہاں کا تو ہو نہیں سکتا

ہمارے گھر میں تو دو چار لوگ رہتے ہیں

ہوا اڑا کے مجھے لے بھی چل اسی جانب

ادھر جہاں میرے دلدار لوگ رہتے ہیں

یہ دل کی بستی تھی کوئی جلانے آیا تھا

میں چیخ اٹھی خبردار، لوگ رہتے ہیں

عجیب دنیا ہے میری سمجھ سے بالاتر

ہر ایک سمت ہی دشوار لوگ رہتے ہیں

سمندروں سے بھی شفاف آسماں سے عمیق

کہیں، کہیں تو چمکدار لوگ رہتے ہیں

رہیں ایک ایسے علاقے میں چل کے رخشندہ

جہاں ہمارے طرفدار لوگ رہتے ہیں

نقیب محفل ادیب خطیب کالم نگار اور حلقہ ارباب ذوق کے سیکرٹری جناب نواز کھرل کی بے بدل گفتگو کی جستجو میں حاضرین کی آرزو جاگ اٹھی انہوں نے اپنے فنی محاسن کی بدولت دیر سے شروع ہونے والی اس تقریب کو دو گھنٹے کے دورانیہ میں ہی اختتام پذیر کر دیا ۔ ابتدائی کلمات

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.