پیکرِ خاکی کا قلندر،محبوب خان اصغرؔ

7

تحریر ۔۔ احمد رشید 

کمال ہوں کہ کمال ہنر نما ہوں میں
دماغ ہوں کہ دل بے نوا ہوں کیا ہوں میں
انسان کا اشرف ہونا کوئی کمال نہیں بلکہ کمال ہنر نما ہونے کا ہے۔ جمالِ کائنات ہویا انسان کا اشرف ہونا۔ یہ تمام امور اس خالق کائنات کے تخلیقی جوہر کی صفت کمالیہ ہے جس نے اپنی جلوہ نمائی کے لئے کائنات کو رنگ و روغن سے جمال عطا کیا اور انسان جو فی احسنِ تقویم ہے اسے اس کا مکین بنایا جو اس کے تخلیفی فن کا شاہکار ہے۔ گوشت و پوست کے جسد خاکی کو دماغ جیسی عظیم نعمت سے نوازا اور دلِ بے نوا بھی عطا کیا۔ دماغ اور دل کے رشتے کو بھی شریانوں کے تاروں کے ذریعے ایسا مربوط کیا کہ انسان حیرت زدہ ہو کر یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ’’کیا ہوں میں‘‘۔ اس استفہام میں ہر فرد فنکار اور مفکر مبتلا ہے با وجود اس کے کہ یہ عقدہ لاینحل ہے اس کے حل کی جستجو میں علم و حکمت کے نئے نئے باب وا ہو رہے اور مسلسل کائنات کی ترقی کی راہیں بھی ہموار ہو رہی ہیں۔
یہ فکر انگیز شعر جو جنوبی ہند کے معتبر شاعر محبوب خان اصغر ؔکا ہے جو اپنی غزلیہ شاعری میں موضوعی، فکری اور اسلوبی نکات کو نمایاں کرتے ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ شاعری میں زبان کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ مگر شاعری صرف لفظوں کا کھیل نہیں، قافیہ پیمائی کو بھی شاعری نہیں کیا جا سکتا۔ دراصل جذبہ کی گرمی اور فکر کی گہرائی کو زبان دینے کا نام شاعری ہے۔
زندگی کے پیچیدہ معاملات اور نادر خیالات کو کامیابی کے ساتھ ادا کرنے پر جن پر اصغرؔ قادرہیں ان کے چند اشعار ملاحظہ کریں؎
نہ جانے کون سی مٹی ہے جلوہ ریز اصفر ؔ
نہ جانے کون سے سانچے میں ڈھل رہا ہوں میں
۔
شعور و فکر کی رخشندہ رفعتوں سے پرے
سیاہ کار رزالت کی ایک بستی ہے
زعمِ انا بجز نہیں زندانِ تیرگی
مشکل بہت ہے اس سے رہائی کبھی ملے
۔
لمس پر سحرسے تیرے میں بنا ہوں گوہر
تو اگر مجھ کو نہ چھوتا تو میں پتھر ہوتا
اصغر ؔکی غزلوں میں اسلوب کی ندرت اور الفاظ کی نئی معنویت اور متن کی سماجی اہمیت متعین کرنے میں پیش پیش نظر آتی ہے۔ وہ ایک نئی آواز کا احساس کراتی ہیں جو جذباتیت کی دین نہیں بلکہ موجودہ صورت حال کی بے مروتی، بے مہری سے پیدا ہوئی ہے ؎
دلوں کے بیچ میں نفرت کا بول بالا ہے
عجیب سبکیٔ حالات میں جیا ہوں میں۔
انسانیت کی شکل ہوئی مسخ اس قدر
پہچان کیسے پائیں کہیں آدمی ملے
اردو کی شعری تخلیقات میں صنف غزل کو اہمیت ہی نہیں فوقیت حاصل ہے کیونکہ شعراء اپنے لطیف ترین جذبات کی واردات کا اظہار غزل کی ہیئت میں کرتے ہیں۔ غزل کے لغوی مفہوم سے قطع نظر اس میں ناز و نیاز کی کیفیات اور حسن وعشق کی قلبی کیفیات کا ابلاغ تہذیبی اور دل پذیر انداز میں ہونا اس لئے ضروری ہے کیونکہ صنف نازک سے گفتگو مطلوب ہے جو مستور بھی ہے۔ جب ہم اردو غزل کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو بہت سارے عالی مرتبت غزل سراؤں کے ہاتھوں سے تہذیب و تمدن کا دامن ہاتھ سے چھوٹ گیا ہے اور انہوں نے غزل گوئی میں تہذیبی اصول و ضوابط کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا ہے۔ غزل کا یہ پہلو بھی لطیف ترین اور لذت آفرین ہو سکتا ہے۔ فی الفور اس موضوع پر مباحثہ کا موقع نہیں ہے۔ عشق مجازی کی جملہ کیفیات کا اظہار اصغر ؔنے کس طرح کیا ہے دیکھیں؎
اچھلتی کودتی رستوں پہ زندہ تصویریں
قدم قدم پہ بہکتی ہوئی سی مستی ہے ۔
گرچہ ہے حرفِ محبت سے شناسائی بہت
تجربہ روحِ محبت کا بھی خوگر ہوتا۔
لمس پرُ سحر سے تیرے، میں بنا ہوں گوہر
تو اگر مجھ کو نہ چھوتا تو میں پتھر ہوتا
۔
اس سے کیا خاک تعارف میں کراتا اپنا
جب ملا مجھ سے وہ خود بیں و خود آرا نکلا
۔
ہم کم سخن تو تھے نہیں آمادہ سخن
وہ کھل گئے تو ہم بھی بہت بولنے لگے
۔
یہ فقط حس پراگندہ ہے کہ اپنے دل پر
رقص کرتی ہوئی تصویروں کی چادر رکھنا
مرقوم اشعار بطور مثال پیش کرنے میں راقم کو رسائی معنی و مفہوم کا کوئی دعویٰ بھی نہیں کیونکہ غزل گوئی بہت دبیز اور نازک فن ہے۔ رمز و ایما‘اشارہ وکنایہ اس کی بنیادی خصائص ہیں۔ مذکورہ اشعار میں کیف و جذبہ کے معاملات اپنی ارفع ترین صورت میں نظر آتے ہیں۔ ہر شعر حیات انسانی کا کوئی نہ کوئی انوکھے پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ ان اشعار میں چند کو چھوڑ کر عشق حقیقی اور عشق مجازی میں حدّ امتیاز کھینچنا بھی آسان نہیں کیونکہ اصغر ؔکی غزلیہ شاعری میں غالب موضوعات‘مذہبیات‘ تہذیب و اقدار اور اخلاقیات کے پہلو کثرت سے نظر آتے ہیں۔ویسے بھی عشق مجازی کی مختلف کیفیات‘ مادّی کثافتوں سے مطہر ہو کر عشق حقیقی کی شکل اختیار کر لیتی ہیں۔ دبستان ادب نے ہمیشہ عظمت انسانی ہی کو دیگر تمام اقدار زندگی سے بلند و بالا قرار دیا ہے۔ موصوف کی شاعری میں علم و حکمت‘ اخلاقی رموز اور انسانی اقدار کے عناصر نمایاں طور پر نظر آتے ہیں ؎
لوگوں کو کھوج رہتی ہے اوروں کے عیب کی
اخبار ڈھونڈتے ہیں کہیں سنسنی ملے
ہے مادیت پرستی ہی اصغر ؔعروج پر
تہذیب اپنی لگتا ہے گھٹ گھٹ کے مرگئی
۔
آدمی جیسے کوئی کھویا ہوا لفظ لگے
کشت ویراں میں نیا تخم دیا کر رکھنا
موصوف کی شعری کائنات میں اقبال ؔکی طرح پیغام ملت کی گونج سنائی دیتی ہے۔ پیہم جدوجہد‘ عمل و حرکت کی دعوت دینے کی شعوری کوشش کا جا بجا نظر آنا ممکن ہے مطالعات اقبالیات کے اثرات کا نتیجہ ہو لیکن اقبالؔ جیسی بلند آہنگی تو نہیں۔ ان کے خطیبانہ انداز میں مخصوص قسم کا دھیما پن دکھائی دیتا ہے۔ چند اشعار ملاحظہ کریں؎
تو خردمند سہی دل بھی منور ہوتا
راہ تاریک میں پرُنور کوئی گھر ہوتا
۔
ذائقہ نفس کا دیتا ہے ہزیمت کا پتہ
عزم بھر پور

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.