زندگی اب تری رفتار سے ڈر لگتا ہے
احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
کوئی تدبیر کرو وقت کو روکو یارو
صبح دیکھی ہی نہیں شام ہوئی جاتی ہے
گھڑی کی ٹک ٹک کے ساتھ ہی لمحے سیکنڈز ،منٹ ،گھنٹے ،دن ،ہفتے ،مہینے اور سال ایک دوسرے کے پیچھے اتنی تیزی سے بھاگ رہے ہیں کہ زندگی کے جھمیلوں اور گہما گہمی میں پتہ ہی نہیں چلا کہ زندگی کی سات دھائیاں ہی وقت کی مٹھی سے ریت کی طرح سرک چکی ہیں ۔ابھی نیا سال گزرنے نہیں پاتا کہ پھرسے نئے سال کا شور سنائی دینے لگتا ہے ۔یوں محسوس ہوتا ہے کہ وقت کی بھی دوڑ لگی ہے جو اپنے ساتھ ہمیں بھی دوڑاۓ چلا جارہا ہے ۔اس بھاگم بھاگ میں کوئی بچھڑ گیا تو کوئی بکھر گیا ۔جدائی کے یہ صدمات سہنے سے وقت گزرنے کی رفتار کا اندازہ لگانا ذرا بھی مشکل نہیں ہے ۔کہتے ہیں زندگی کیا ہے۔ غم و خوشی کا ایک ایسا دریا ہے ۔جوں جوں یہ سفاک دریا ڈھلوان کی جانب بڑھتا ہے اس کی دوڑ میں تیزی آنا شروع ہو جاتی اسکے پانی کی رفتار بڑھ کر تیز تر ہو جاتی ہےاور یہ زندگی کو نت نئی صورتوں سے دوچار کرتا چلا جاتا ہے ۔پانی کی طرح وقت کا پہیہ اتنی تیزی سے گھومتا ہے کہ انسان نہ چاہتے ہوۓ بھی اس کے ساتھ ساتھ دوڑنےپر مجبور لگتا ہے ۔ پلٹ کر پیچھے کی جانب دیکھنے پر ہی محسوس ہوتا ہے کہ ہم کس اسپیڈ اور رفتار سے دوڑ تے چلے جارہے ہیں ۔اور اس دوڑ میں شامل کتنے ہی چہرے ٔ آگے نکل کر اپنا سفر تمام کر چکے ہیں اور کتنے ہی چہرے ٔ وقت کے ساتھ دوڑتے دوڑتے کس قدر تھک چکے ہیں کہ کسی لمحے ہی سفر تمام کر دیں گے ۔جیسے جیسے وقت اور زندگی کے اس کھیل میں کچھ فاصلہ بڑھتا ہے تو محسوس ہوتا ہے کہ پہلےتو وقت نے بےوفائی کی تھی اور اب زندگی دغا دۓ کر ساتھ چھوڑنے کے درپے ہے ۔سوچیں تو یہ سفر طویل لگتا ہے دیکھیں تو یہ سب کل ہی تو بات ہے ۔کبھی کبھی لگتا ہے کہ وقت کی رفتار تو وہی ہے اور وہ اپنی مخصوص رفتار پر ہی رواں دواں ہے یہ زندگی ہی ہے جو کبھی تیز اور کبھی دھیمی رفتار سے چلنا شروع کر دیتی ہے ۔وقت کی رفتار تو وہی ہے مگر منزل کے قریب پہنچ کر ہمیں کبھی تیز اور کبھی آہستہ لگتی ہے ۔خوشی کے لمحات پلک جھپکتے بہت تیزی سےگزرتے ہیں اور دکھ کی گھڑیاں بہت آہستہ آہستہ گزرتی ہیں بلکہ دکھ اور تکلیف میں تو یوں لگتا ہے کہ شاید وقت اپنی جگہ پر ٹھہر گیا ہے یا پھر رینگ رہا ہے۔عجیب بات ہے کسی کو وقت ملتا نہیں اور کسی کا وقت گزرنے میں نہیں آتا ۔
اپنی مرضی سے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں
رخ ہواوں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں
مجھے چند دن قبل اپنے آبائی شہر جانا پڑا تو حیرت ہوئی کہ جو بچے تھے وہ ادھیڑ عمر اور جو جوان تھے وہ بوڑھے نظر آۓ اور بڑے بوڑھے تو صرف یادوں اور باتوں میں ہی زندہ ہیں ۔میرے چند کلاس فیلو اور بچپن کے ساتھی جو ماشااللہ ابھی حیات ہیں ان کے چہرے دیکھ کر لگتا ہے کہ وہ ایک لمبا سفر کرچکے ہیں ۔اس سفر کی تھکن ان کے چہروں سے نمائیاں ہوتی ہے ۔چہرے اسقدر بدل چکے ہیں کہ انہیں پہچاننا بھی بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔ہر شخص کسی نہ کسی بیماری کے ہاتھوں پریشان دکھائی دیا کسی کا بائی پاس ہوچکا تو کوئی اپنے دل کی رگوں میں کئی کئی سٹنٹ ڈلوا چکا ہے تو کوئی اپنے جگر کے ہاتھوں تنگ ہے کوئی شوگر بلڈ پریشر کی گرفت میں ہے ۔ایک دوست تو فالج کی وجہ سے بولنے اور چلنے پھرنے سے بھی قاصر ہو چکا ہے۔چہرے پر پرنور ،سفید داڑھیاں اور پیشانی پر محراب دیکھ کر انہیں بزرگ ہی کہا جاسکتا ہے ۔کسی کو کانوں سے سنائی نہیں دیتا تو کسی کو آنکھوں سے بہت کم دیکھتا ہے ۔موٹی موٹی عینکیں اور کانوں کے آلے لگے ہیں ۔شاید اب بہت سی چیزیں اپنی جگہ پر نہیں رہیں ۔لیکن یہ سب اپنی منزل اور اپنے بہترین انجام کی جانب بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں ۔حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ “انسان موت سے بچنے کی کوشش کرتا ہے جہنم سے بچنے کی نہیں کرتا حالانکہ وہ جہنم سے بچ سکتا ہے موت سے نہیں “
چہرہ ونام ایک ساتھ آج نہ یاد آسکے
وقت نے کس شبیہ کو خواب وخیال کردیا
میں نےایسے ہی ایک بچپن کے دوست کو دیکھ کر کہا یار ! تم تو بہت بوڑھے لگتے ہو تو وہ ہنسا اور کہنے لگا جی ہاں ! تمہیں دیکھ کر مجھے بھی ایسا ہی لگتا ہے ۔ ہم تو اب ایک دوسرے کا آئینہ بن چکے ہیں ۔میں نے کہا یار اب تو وقت کی رفتار سے ڈر لگتا ہے جانے کب آئینہ سے چہرہ غائب ہو جاۓ ۔وہ پھر ہنسا اور کہنے لگا لگتا ہے زندگی کے اختتام سے ڈرتے ہو یا انجام سے خوف آتا ہے ؟ کیا ہمیشہ آئینے میں نظر آنا چاہتے ہو ؟ ایسا کچھ تو یہ وقت نہیں ہونے دیتا۔ یہ وقت خود تو زندہ رہتا ہے لیکن زندگی ہار جاتی ہے اس کے ساتھ دوڑ نہیں پاتی تھک جاتی ہے ۔زندگی تو گزر گئی بس دعا کرو اب خاتمہ ایمان پر ہو اور اگلی زندگی کا سفر آسان رہے ۔اس کی بات بالکل درست تھی ایمان پر جینا اور ایمان پر مرنا ہی ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے ۔لیکن وہ اس دنیا میں کیسے جیتا اور زندگی گزارتا ہے ۔اس کی وہی یادیں اور باتیں برسوں لوگوں کو یاد رہتی ہیں ۔
اسکی بات سن کر مجھے اپنے اباجی کی ایک بات یاد آگئی ایک دن کہنے لگے کوئی فرد مرنا نہیں چاہتا ہمیشہ زندہ رہنے کی خواہش رکھتا ہے مگر اس کے لیے کوشش نہیں کرتا ۔میں نے پوچھا اباجی کیا انسان ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے ؟ کہنے لگے ہاں کیوں نہیں ؟ضرور زندہ رہ سکتا ہے ۔میں نے پوچھا وہ کیسے ؟ فرمایا شہید کو موت نہیں آتی بےشک وہ زندہ ہیں اور اپنے رب سے رزق حاصل کرتے ہیں کیونکہ انہوں نے اپنی جان اللہ کی راہ میں اور اسکی محبت میں قربان کی ہے ۔گو اللہ کی راہ میں لڑ کر شہید ہونا افضل ہے لیکن شہادت کے کئی اور درجات بھی ہیں کسی کی جان بچاتے ہوے ٔجان دینا بھی شہادت ہوتی ہے۔شوق شہادت رکھنا ،عملی طور پر جہاد میں شامل ہونا اور اللہ تعالیٰ اسکے پیارے نبی کریم ؐ اور اہل بیت سے محبت میں جان دینا بھی کسی شہادت سے کم نہیں ہے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے خاص بندے ہوتے ہیں وہ بظاہر مر کر بھی لوگوں کے دلوں میں ہمیشہ کے لیے زندہ رہتے ہیں یہ وہ ہوتے ہیں جو اللہ کے بندوں سےپیار کرتے ہیں اور اپنی زندگی دکھی انسانیت کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔شاید موت یہ نہیں ہے کہ آنکھیں دیکھنا بند کردیں یا زبان کا ذائقہ ختم ہوجاۓ یا انسان حرکت نہ کر سکے یا پھر چلنے پھرنے سے محروم ہوجاۓ ۔اصل موت تو وہ ہے جب وہ لوگوں کے دلوں سے نکل جائیں اور زندہ رہنے والے انہیں بھول جائیں ۔تاریخ میں انسانیت کی خدمت کرنے والے ہمیشہ لوگوں کے دلوں میں زندہ رہتے ہیں خواہ وہ حضرت عبدالقادر جیلانی ؒ ہوں یا حضرت داتا گنج بخش ؒ ہوں یا حضرت خواجہ معین الدینؒ چشتی جیسے اولیا اللہ ہوں یہ نہیں کہ صرف مسلمان ہی یاد رہتے ہیں بےشمار غیر مسلم بھی آج تک لوگوں کے دلوں میں زندہ ہیں جیسے بابا گرو نانک ،گلاب دیوی ،سر گنگا رام جیسے بےشمار لوگ ان سب کی لوگوں کے دلوں میں زندہ رہنے کی ایک ہی وجہ ہے ۔”خدمت انسانیت “اور اللہ کے پیدا کئے گئے لوگوں سے محبت رکھنا کیونکہ اللہ کو اپنے بندوں سےبہت پیار ہے اور جو اس کے بندوں سے پیار کرۓ وہ اللہ کی پاک ذات کو بہت پسند ہے ۔ایسے لوگوں کے بنواے گئے مدارس ،مساجد ،ہسپتال ،پانی کے کنوئیں ،ان کو زندہ رکھتے ہیں ۔لوگ بڑے بڑے محل بنوانے والوں کو تو بھول جاتے ہیں لیکن ہسپتال بنوانے والے کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں ۔اللہ کے بندوں کے لیے کچھ ایسا کر جائیں چاہے وہ فلاحی کام ہو ،دینی کام ہو یا پھر عطار ،رازی ،سعدی ،رومی ،غزالی ،اور علامہ اقبال جیسا سچا عشق رسول ہو یا پھر ان جیسی سوچ اور تصنیفات ہوں یا پھر صوفیانہ کلام اور شاعری جو تا ابد یاد رکھی جائیں گیں۔ ۔عبادت الہی بذریعہ خدمت انسانیت جیسے بھی ہوسکے اس کو اپنی زندگی کا شعار بنا لیں اور اللہ کی رضا کو انسانی خدمت میں تلاش کریں تو یقینا” آپ بھی لوگوں کے دلوں ہمیشہ زندہ رہیں گے ۔آپ کا کوئی ایک اچھا عمل آپ کو زندہ رکھ سکتا ہے ۔محبت ،دوستی ،ہمدردی ،رہنمائی ،انسانی فلاح اور یا مدد اس فانی دنیا میں ایسا کوئی نشان ضرور چھوڑ جائیں جو یہ بتاتا رہے کہ آپ یہاں سے گزرے تھے ۔
دھوکہ ہے اک فریب ہے منزل کا ہر خیال
سچ پوچھیئے تو سارا سفر واپسی کا ہے