مخصوص نشستوں کے کیس میں مروجہ قوانین کی خلاف ورزی پر چیف جسٹس کا رجسٹرار سے جواب طلب

20

اداریہ

پاکستان میں قانون کی بالادستی کی بات ہوتی ہے مگر عملدرآمد تک نوبت کب آتی ہے ،حال ہی میں سپریم کورٹ کے ایک اکثریتی فیصلے پر ملک بھر کے سیاسی ،سماجی ،اور عوامی حلقوں میں نئی بحث چھڑ گئی تھی ،سیاسی مبصرین کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی جھولی میں بغیر مانگے ہی مخصوص نشستیں ڈال دی گئیں ،حالانکہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سمیت کئی معتبر ججز نے فیصلے سے اختلاف کرتے ہوئے اس میں بنیادی قانونی خلاف ورزی کی نشاندھی کی گئی تھی ،پھر بھی سپریم کورٹ میں اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد کے لئے دبائو ڈالا جارہا تھا ،دوسری جانب اس فیصلے کو بڑی سیاسی جماعتوں نے چیلنج بھی کیا ہے مگر ان کی درخواستوں پر سماعت کو موخر کرتے ہوئے فوری طور پر مخصوص نشستوں کے اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد کیلئے الیکشن کمیشن کو ہدایت کی جاتی رہی ،اسی اثنا میں سپیکر قومی اسمبلی نے ایک خط کے ذریعے الیکشن کمیشن کو اس فیصلے پر عملدرآمد سے باز رہنے کی بھی ہدایت کی ہوئی ہے اور اس میں پارلمنٹ کی جانب سے ہونیوالی نئی قانون سازی کے تحت اس پر عملدرآمد کا جواز ختم ہونے کی بھی نشاندھی کی گئی ہے ،اس دوران اب مخصوص نشستوں کے بارے میں سپریم کورٹ کے اس اکثریتی فیصلے پر چیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی ایکشن لے لیا ہے اس تناظر میں سپریم کورٹ میں مخصوص نشستوں کے کیس میں اکثریتی ججز کی 14 ستمبر کی وضاحت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار سے 9 سوالات پر جواب مانگ لیا۔پی ٹی آئی کی مخصوص نشستوں کے معاملے پر سپریم کورٹ کے 8 اکثریتی ججز کی جانب سے جاری وضاحت پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار سپریم کورٹ جزیلہ اسلم سے 9 سوالات کے جوابات طلب کیے ہیں۔رجسٹرار سے پوچھا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن اور تحریک انصاف نے وضاحت کی درخواست کب دائر کی؟ تحریک انصاف اور الیکشن کمیشن کی درخواستیں پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی میں کیوں نہیں بھیجی گئیں؟ متفرق درخواستیں کاز لسٹ کے بغیر کیسے سماعت کے لیے مقرر ہوئیں؟۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پوچھا ہے کہ کیا رجسٹرار آفس نے متعلقہ فریقین اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا؟ کسی کمرہ عدالت یا چیمبر میں درخواستوں کو سنا گیا؟ درخواستوں پر فیصلہ سنانے کے لیے کاز لسٹ کیوں جاری نہیں کی گئی؟۔رجسٹرار سپریم کورٹ سے مزید پوچھا گیا ہے کہ آرڈر کو سنانے کے لیے کمرہ عدالت میں فکس کیوں نہ کیا گیا؟ اوریجنل فائل اور آرڈر سپریم کورٹ رجسٹرار میں جمع ہوئے بغیر آرڈر کیسے اپلوڈ ہوا؟ آرڈر کو سپریم کورٹ ویب سائٹ پر اپلوڈ کرنے کا آرڈر کس نے کیا؟۔یاد رہے کہ 14 ستمبر کو مخصوص نشستوں کے کیس میں سپریم کورٹ کے اکثریتی بینچ نے وضاحتی حکم جاری کیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ فیصلے کی روشنی میں پارٹی سرٹیفکیٹ جمع کرانے والے پی ٹی آئی کے کامیاب امیدوار ہیں جبکہ الیکشن کمیشن فیصلے پر فوری عملدرآمد کرے۔اکثریتی 8 ججز کے بینچ کا فیصلہ 4 صفحات پر مشتمل تھا جس میں کہا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن نے 41 ارکان سے متعلق وضاحت کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا، الیکشن کمیشن کی وضاحت کی درخواست کنفیوژن پیدا کرنے کی کوشش اور تاخیری حربہ ہے، الیکشن کمیشن کی وضاحتی درخواست عدالتی فیصلے پر عمل در آمد کے راستہ میں رکاٹ ہے اور اس کی وضاحت کی درخواست درست نہیں۔ان حالات میں سپریم کورٹ کے اس اکثریتی فیصلے پر عملدرآمد سے قبل نئی بحث چھڑ گئی تو اب اس پر اہم پیشرفت یہ ہوئی ہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سوال کیا کہ متفرق درخواستیں کاز لسٹ کے بغیر کیسے سماعت کے لیے فکس ہوئیں؟ کیا رجسٹرار آفس نے متعلقہ فریقین اور اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کیا؟۔یعنی قانونی تقاضے ہی شائد پورے نہیں کئے گئے اور اس میں بنیادی نقص موجود ہے جب کوئی بھی فیصلہ معروف مروجہ قوانین سے ہٹ کر سامنے آتا ہے تو اسکی پھر کیا حیثیت رہ جاتی ہے ؟۔اسی مسئلے پر اب جاکر چیف جسٹس کی جانب سے اہم پیش رفت کی گئی ہے ،جس سے اب اس قضیئے کے حل کی کچھ امید پیدا ہوگئی ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.