نامور شاعر اشتیاق میر

72

کتاب …… ( زندگی اتنی تو ہو )
تحریر…نغمانہ خورشید(بیا جی)


اشتیاق میر سے میرے تعارف کا عرصہ بہت طویل نہیں ہے۔ اس کے باوجود کچھ شخصیات سے مل کر احساس ہوتا ہے کہ یہ سراپا خلوص ہیں ۔
یقینا اس بات کی تائید ہر وہ شخص احباب کریں گے جو اشتیاق میر کے حلقہ اثر اور ارادت میں ہیں۔ پوٹھو ہار کشمیر سے تعلق کی بنیاد یہ قطعاً نہیں کہ وہ میر تقی میر کے قریبی حلقہ یا خاندان سے تعلق رکھتے ہوں گے۔ اشتیاق میر کی شاعری ہی ان کا حوالہ ہے۔ وہ اپنے دلیں اور وطن کا درد پردیس میں بھی محسوس کرتے ہیں۔ ان کی شاعری میں ترنم ہے۔ وہ کلام پڑھتے ہیں ۔ تو لگتا ہے لکھنو کا کوئی بانکا غزل سرا ہے۔ وہ اچھے گائیک ہونے کے ناتے سُر اور ساز کو بھی سمجھتے ہیں۔ ان کی کتاب کا مطالعہ کرنے کے بعد احساس ہوا کہ انہوں نے پردیس میں مال وزر کمانے پر ہی زور نہیں دیا۔ دلوں کو تسخیر کرنے کا فن بھی حاصل کیا ہے۔
چند شعر دیکھیئے:۔
سامنے اُس شخص کے حالت میری اتنی تو ہو وہ مجھے پہچان جائے آگہی اتنی تو ہو راز دل راز محبت بھی میں تجھ سے کہہ سکوں میرے ہمدم میری تجھ سے دوستی اتنی تو ہو اُس کا وعدہ ہے کہ اک دن لوٹ کر آئے گا وہ میں دُعا کرتا ہوں میری زندگی اتنی تو ہو بات میں نرمی ہو لہجہ بھی ہو شیریں آپ کا میر صاحب گفتگو میں چاشنی اتنی تو ہو
اشتیاق میر کی شاعری میں تازہ کاری نمایاں ہے۔ اپنے انتظار کی کیفیت یوں بیان کرتے ہیں:۔
اب آ بھی جا کہ ترا انتظار ہوتا نہیں
دل حزیں کو میتر قرار ہوتا نہیں عجیب لوگ ہیں سب کو پڑی ہے اپنی میر یہاں کسی کا کوئی غم گسار ہوتا نہیں
لوگ کہتے ہیں اپنی شان میں کیا کل رہیں گے بھی داستان میں کیا
بدلے بدلے ہیں آپ کے تیور کوئی کچھ کہہ کیا ہے کان میں کیا جو عادی ہے تلخ لہجے کا
وہ
لائے گا چاشنی زبان میں کیا
ستارے کبھی نہیں
سوتے
رت جگے سے ہیں آسمان میں کیا
میر جو دیکھنا
تھا دیکھ لیا
اور دیکھیں گے اب جہان میں کیا

.O..
لاکھ ہوں دُور مگر دھیان مدینے میں رہے
سو
تصویر مرا ہر
آن مدینے میں رہے
جسے مل جائے یہاں نقشِ کفِ پائے رسول
پھر نہ ہرگز
وہ پریشان مدینے میں رہے
ہر طرف ٹور کے جلوؤں کا ہے عالم عالم ایسا
که نظر واقعی حیران مدینے میں رہے تو بتا چاہیے کیا اور بھلا میر تجھے
بن کے گر نائب حسان مدینے میں رہے
میر صاحب کی نعت پڑھ کر احساس ہوا کہ وہ پکے اور سچے مسلمان ہیں۔ ان کی نعت سے نجی سے محبت کی انتہا نظر آتی ہے۔ خاص طور پر پردیس سے گئے ہوئے لوگوں کے ساتھ ان کا تعلق اور تکلف کسی اور رنگ میں ڈھلتا دکھائی دیتا ہے ۔ عاجزی اور
انکساری ان کے مزاج کا حصہ ہے۔ دلّی اور لکھنو دونوں کی ادبی وراثت کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ شعر میں جاندار مصرعے کی بُنت ان کی اولین کاوش ہے۔ اساتذہ سے احترام کا رشتہ اور چھوٹوں سے شفقت کا تعلق رکھنے والے
اشتیاق میرریت کے ساتھ رواج کے بھی شاعر ہیں۔ بچے دل سے قدر کرنے والے شاعر پردیس میں بھی ہفت رنگ کہکشاں کی سی
محفلیں سجائی رکھتے ہیں۔
احباب کی خدمت ان کے اخلاص کی عمدہ مثال ہے۔ ہمارے ہمسایہ ملک میں بھی اپنی علیحدہ شناخت اور پہچان رکھتے ہیں۔ ان
کی کتاب میں ایک ایک ورق پر ماضی حال اور مستقبل کی جھلک دیکھی جاسکتی ہے۔ وہ ایک شخص جو گھر سے کبھی نہیں نکلا
حصار ذات سے باہر نکلنے والا تھا
یہ دن ہیں محبت کے عنایت کے کرم کے سرکار یہ دن آگ لگانے کے نہیں ہیں
میر اب چار سو
اندھیرا
ہے
سارا
أجالنا
پڑے
اشتیاق میر اُس نسل کے نمائند شاعر ہیں۔ جس نسل نے انسان کو مشین بنتے دیکھا۔ میلوں ٹھیلوں اور مشاعروں کے ماحول سے نکل کر موبائل کی دُنیا قائم کرنے والی نسل کے ہر پہلو ہر زخم ہر دکھ اور خوشی کو اُنہوں نے شاعری کا حصہ بنایا ہے۔ یہ جب شعر پڑھتے ہیں تو وہ دل کا درد سمٹ کر آنکھوں میں آجاتا ہے۔ شاعر کبھی بھی اپنے ارد گرد کے ماحول سے دُور نہیں ہوتا۔ شاعر وہی ہوتا ہے جو دوسروں کے دکھ درد کو محسوس کر سکتا ہے۔ وہ کمال اور زوال کے نیچے چھپی سسکیوں کو بھی محسوس کرتا ہے۔ وہ پردیس میں گزرنے والے اذیت ناک دن اور رات کے دُکھوں سے بھی نبرد آزما رہا ہے۔ جب بھی اشتیاق میر سے مکالمہ ہوا اس کو سرا پا خلوص پایا۔ لاہور میں ادبی تنظیم پنجابی و بیڑہ نے اشتیاق میر کی کتاب ( زندگی اتنی تو ہو ) کی رونمائی کا اہتمام کیا۔ پنجابی و سیرہ اپنی روایت کے مطابق شاعروں کو عزت اور احترام دیتا ہے۔ پنجاب کی ثقافت کے مطابق پگڑی پہنائی جاتی ہے۔ محبتی پذیرائی کا انداز صدیوں
تک یا درہتا ہے۔ اشتیاق میں بحیثیت انسان آدمی کی معراج قائم کئے ہوئے ہے۔ ان میں انسانیت سے لگاؤ اور انسانیت کی خدمت کا جذبہ بھی ہے۔
نہیں معلوم کسی کو پس دیوار کا دُکھ
کاٹنے دوڑتا ہے مجھ کو غم یار کا دُکھ
اشتیاق میر کی شاعری میں انوکھے خیال جنم لیتے ہیں۔ وہ ترنم میں لکھنے میں سہل پسند واقع ہوئے ہیں۔ ان کی تراکیب اور
اضافتیں شاعری کو مزید جلا بخشتی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ جس معاشرے میں انسانیت زندہ ہے وہاں شاعری نا صرف پنپتی ہے بلکہ دلوں پر
اثر انداز بھی ہوتی ہے۔ وہ یورپ میں رہتے ہوئے سمجھتے ہیں کہ دولت ترقی اور پراگندہ ماحول نے اس معاشرے کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ وہ انگلینڈ جیسے ترقی یافتہ ملک میں رہ کر بھی پاکستان کے کسی دُور دراز گاؤں میں زندگی گذار رہے ہیں اور اپنادُ کھ اور درد شاعری
کے ذریعے صفحہ قرطاس پر بکھیر رہے ہیں ۔ چہرے پر مسکراہٹیں سجائے اشتیاق میر کے اندر سے کون رکس قدر جان سکتا ہے۔ دلوں کے را از تو رب تعالٰی کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ جیسے اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا:۔
چند شعر دیکھیئے:۔
مل گئیں آخر مجھے تنہائیاں
ہائے قسمت کی ستم آرائیاں
ظرف کا اپنے نہیں کوئی جواب
ہم نے سب
جھیلیں ستم آرائیاں
یاد آتا
ہے
ترا اک اک ستم
دیکھتا
ہوں
تری
رعنائیاں
میر اب کوئی نہیں پرستان حال
ره
گئیں بس یاد کی پرچھائیاں
اشتیاق میر کے لئے چند الفاظ اگر میرے قلم سے نکلے ہیں تو یہ اس کا حق ہے۔ یہ شخص اعتبار اور پیار کا مسافر ہے۔ میری دُعا ہے اللہ تعالیٰ کسی دُکھ کے باعث اس کی پلکوں کو تر نہ کرے۔ خوشیوں کے باعث اس کے آنسو دوسروں کی ہمدردی میں نکلتے رہیں ۔ آلودگی نہ ہو ۔ آلودگی دلوں کو پتھر بنا دیتی ہے۔ کسی کو خوشی بانٹ کر نم آنکھوں سے رب کا شکر ادا کرنے والا اشتیاق برگام کامیاب و کامران
رہے۔ (آمین)

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.