سپیکر پنجاب اسمبلی کا ایک دلکش پیغام
تحریر: شفقت حسین
حضرت بابا بُلھّے شاہ کی عظیم دھرتی سے تعلق رکھنے والے اور میرے استادِ مکرم، مرّبی و محسن جناب ارشاد احمد حقانی مرحوم و مغفور کے ہونہار’ مؤدب اور مہذب الاخلاق’ نستعلیق اور ایک کمپوزڈ شاگردِ رشید ملک محمد علی مرحوم سابق ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات کے مصداق صاحبزادے سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان میں اپنے عظیم والد کی نہ صرف جھلک نظر آتی ہے بلکہ ہو بہو وہ اپنے والد کا پرتو ہیں۔ انہوں نے کچھ عرصہ پہلے پنجاب حکومت کے ترجمان کے طور پر بھی اپنی صلاحیتوں کو عوام پر واضح کیا۔ انہوں نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لئے دل سے اپنی توانائیاں صرف کیں اور آج وہ صوبائی اسمبلی کے سپیکر بن کر اپنا کردار غیر جانبدارانہ طور پر ادا کرنے والے سپیکر کی پہچان اور شہرت رکھتے ہیں۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مرحوم و مغفور ملک محمد علی جناب ارشاد احمد حقانی صاحب سے ملنے روزنامہ ”جنگ ”کے دفتر تشریف لاتے تو میں ورطۂ حیرت میں ڈوب جاتا کہ کس طرح ایک بڑا سیاستدان اپنے استاد کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر ان کے سامنے باادب ہو کر کرسی پر بیٹھ کر ہاتھ باندھے اپنے استاد سے انتہائی دھیمے لہجے میں گفتگو کرتا۔ چونکہ مجھ سے میرے استادِ مکرم اور مجھے اپنے محسن سے کسی ضرر کا اندیشہ نہ ہوتا تھا اس لئے ایک بڑے ہال نما کمرے میں ہم دونوں استاد شاگرد آمنے سامنے بیٹھتے تھے اور بیچ میں کوئی پردہ بھی حائل نہ ہوتا۔ جناب ارشاد احمد حقانی اور محترم ملک محمد علی ڈھیروں گفتگو کرتے اور چلتے وقت ملک صاحب کا انداز پھر وہی ہوتا جو ہمارے دفتر آتے وقت ہوتا۔ آج میں پنجاب اسمبلی میں ان کے عزم و عظمت و ہمت کے کوہِ گراں بیٹے سپیکر ملک محمد احمد خان کو اسمبلی کی کارروائی بڑے باوقار انداز میں چلاتے ہوئے دیکھتا ہوں تو ان کے والد اکثر یاد آجاتے ہیں۔ ملک احمد یار خان نے جب سے سپیکر کا عہدہ سنبھالا ہے تب سے اب تک یعنی ایک خاص مفہوم میں روزانہ کی بنیادوں پر خواص و عام سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں اور اسی طرح اہم مواقع پر ان کے پیغامات اور بیانات کی ترسیل بلاادنیٰ تاخیر ہوتی رہتی ہے اور ہم جیسے قلم کے مزدوروں تک یہ پیغامات اور بیانات پہنچتے رہتے ہیں۔ اور اس کارِخیر کی ادائیگی میں ایک بڑا اور بھرپور کردار پنجاب اسمبلی کے چیف پبلک ریلیشنز راؤ ماجد علی ادا کرتے ہیں جن کی صحافتی تربیت چوہدری اکبر علی جیسے لائق ‘قابل اور فہیم افسر کے ہاتھوں ہوئی ہے جو کچھ ہی عرصہ پہلے گریڈ 20 میں پی ایس او ٹو سپیکر اور ایڈیشنل سیکرٹری کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں۔ راؤ ماجد علی نے یومِ مئی کے حوالے سے سپیکر کا مزدوروں کے نام جو پیغام پریس کو جاری کیا جو ظاہر ہے یہاں پورے کا پورا تو نقل نہیں کیا جاسکتا تاہم اس پیغام کا کرکس اور مغز یہ ہے کہ حکومت مزدوروں کو رزقِ حلال کے حصول کے لئے موزوں ماحول کی فراہمی کے حوالے سے پُرعزم ہے نیز یہ کہ اس سے ہمارے مزدور ملک کی طاقت بنیں گے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت اور پوری قوم اپنے مزدوروں کے کردار اور معاونت کو سراہتی ہے اور ان کے حقوق کا تحفظ موجودہ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔ بلاشبہ سپیکر کا عزم قابلِ فہم ہونے کے ساتھ ساتھ لائق ستائش بھی ہے کیونکہ آج کے حالات میں مزدور کے حقوق کے تحفظ کی ضرورت ماضی کے مقابلے میں کہیں بڑھ کر ہے۔ ہمیں بطور مسلمان اور انسان تعلیماتِ اسلام نے جہاں دوسری بہت سی چیزوں کا شعور بخشا ہے وہاں الکاسب حبیب اللہ بتا کر مزدور کی عظمت کو بھی اجاگر کر دیا ہے کہ کمانے والا محنت کش اللہ تعالیٰ کا ہمیشہ دوست ہوا کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مزودور کی مزدوری اس کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے پہلے ادا کرنے کا حکم بالوضاحت اور صراحت کے ساتھ آیا ہے لیکن معذرت کے ساتھ ہمارے ہاں مزدور کی قدر پیمائی اور عزت افزائی کا کوئی اہتمام نظر نہیں آتا نہ اس کے بچوں کی صحت کا خیال کسی نے رکھا ہے اور نہ ہی مزدور کے بچوں پر تعلیم کا حصول سستا اور ارزاں بنایا جاسکا ہے۔ آج بھی اڑھائی کروڑ سے زائد بچے ابتدائی پرائمری تعلیم کے حصول میں بھی ناکام ہیں۔ طبی سہولتوں کی فراہمی کا فقدان بھی ہم آئے روز اخبارات میں ملاحظہ کرتے رہتے ہیں اور یہ سارا کیا دھرا ہے ہماری سول حکومتوں کا اور بیوروکریسی (جسے لوگ ہمیشہ بُرا کریسی کے نام سے یاد کرتے ہیں) کا۔ جو اپنے اللّے تللّے تو ہمیشہ پورے کرتے ہیں۔ ان کی اعلیٰ اور پُرتعیش شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ والی زندگی ان کے زیرِ استعمال لگژری اور بڑے بڑے مہنگے برانڈز کی گاڑیاں اور ان میں پٹرول تو ڈلتے رہتے ہیں ان کے بیرونی ممالک کے دورے اور قیمتی ہوٹلوں میں رہائش کے لئے وسائل تو پورے کر لئے جاتے ہیں لیکن مزدور کے لئے نہ سر چھپانے کے لئے کسی معقول چھت کا انتظام ہے اور نہ ہی زندگی کی دیگر سہولتیں یقینی بنائی جاسکی ہیں۔ گندم کا حالیہ بحران ہی ملاحظہ کرلیا جائے جس نے چھوٹے کسان کی کمر تو توڑی ہی ہے اس بحران نے مزدور طبقے کو بھی تھوڑا نہیں بہت زیادہ متاثر کیا ہے کیونکہ نہ کسانوں سے گندم خریدی جارہی ہے اور نہ ہی مزدور کو اس کی مزدوری کی ادائیگی ہو رہی ہے یعنی کسان بھی پریشان اور مزدور بھی مغموم ہے لیکن اس بحران کے ذمہ داروں کو کٹہرے میں لانے والا کوئی بھی موجود نہیں۔ ہمارے مزدور میں جس قدر پوٹینشل اور اس کے اندر موجود جو استعداد ہے اس کا اندازہ کسی نے آج تک کیا ہی نہیں۔ ہمارے حکمران اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ان کے عہد میں پاکستان کی ہونے والی ترقی کو اگر ایک لمحے کے لئے باہر نکال دیا جائے تو باقی کھنڈرات بچتے ہیں اور بیوروکریسی اس لعنت سے چھٹکارا حاصل نہیں کر سکی کہ اصل طاقت صرف ہم ہیں باقی بیس پچیس کروڑ عوام کیڑے مکوڑے ہیں۔ ان خیالات کی موجودگی میں سپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان کے مزدورں کے دن پر جاری ہونے والے پیغام کو تازہ ہوا کا جھونکا ہی کہا جائے گا۔ اگر (بقول سپیکر) حکومت واقعی مزدور کے حالات کو بہتر بنانے میں کامیاب ہو گئی تو اگلے پانچ سال بھی اس کے ہوئے لیکن آثار و قرائن واضح نہیں ہیں۔ کیونکہ مزدور کے اوقات بڑے تلخ بلکہ کڑوے ہو چکے ہیں لیکن سپیکر کا پیغام بالکل واضح ہے۔اس سے پہلے کہ ہم مزدور کے ہاتھوں ہر کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلتے ہوئے خود اپنی آنکھوں سے دیکھیں مزدور کے حالات کو بہتر بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا ہوگا۔ اس سے معزز سپیکر کے ظاہر کردہ خیالات اور عزم اور عہد بھی سچ ثابت ہو سکیں۔ سراب نہیں۔ اگر ہم بیرونی ممالک سے آنے والے وفود سے تجارتی معاہدوں کے ساتھ ساتھ ان کے ملکوں میں اپنے مزدور طبقے کے لئے ویزے بھی طلب کریں تاکہ ہماری افرادی قوت باہر کے ملکوں میں جاکر ہمارے لئے زرِمبادلہ کا اہتمام کر سکیں تو اس سے بھی یقینا ہماری معیشت میں استحکام جبکہ مزدور کے تلخی ٔ ایام میں نمایاں طور پر کمی واقع ہو سکتی ہے۔