تین سو یونٹ فری بجلی سے سولر ٹیکس تک

163

تحریر ؛۔ جاویدایازخان
پچھلے دنوں گھریلو یا کمرشل صارفین پر دو ہزار روپے فی یونٹ ٹیکس عائد کرنے کے حکومتی عندیے کو عوام نے بڑا سنجیدہ لیا اور پہلے سے ہی بجلی کے بلوں کے بوجھ تلے دبے صارفین میں سولر پینل پر ٹیکس سے فکر مندی اور پریشانی کی ایک لہر دوڑ گئی ۔جس پر حکومت کو فوری طور وضاحت اور اس افواہ یا ارادے کی تردید کرنا پڑی ۔عوام کی بڑی تعداد جو بڑی مشکل سے اپنی جمع پونجی لگا کر سولر پینل لگوا چکی ہے اس ٹیکس کے بارے میں سن کر تڑپ اٹھی ہے اور یہ بات بڑے ایوانوں اور پارلیمنٹ تک جا پہنچی ہے اور اب تو سینٹ میں بھی اس ٹیکس پر احتجاج کی گونج سنائی دے رہی ہے ۔حکومتی تردید کے باوجود عوام کی اس بارے میں تسلی ہوتی نظر نہیں آرہی ہے ۔ انتخابی مہم کے دوران دو سو اور تین سو یونٹ فری بجلی دینے کا اعلان کرنے والی سیاسی پارٹیاں اتفاق سے دونوں ہی اقتدارکی مسند پر براجمان ہیں اور بجاے ٔ اپنے اعلان شدہ ریلیف دینے کے وہ ناصرف اقتدار میں آنے کے بعد بجلی کی قیمتوں میں بڑا اضافہ کر چکیں ہیں بلکہ مزید اضافے کی بات بھی ہو رہی ہے۔ جو ایک لمحہ فکریہ ہے اور اب تو سولر پینل یعنی سورج کی روشنی سے حاصل کردہ بجلی پر بھی ٹیکس لگانے کی اس سوچ نے لوگوں کی پریشانی میں اضافہ کر دیا ہے ۔ لگتا یہ ہے کہ انتخابی وعدے تو صرف عوام سے ووٹ لینے کے لیے ہوتے ہیں یا پھر انہیں توقع نہیں تھی کہ وہ اقتدار کی مسند پر بیٹھ بھی سکتے ہیں ۔اور عوام سےکئے گئے اپنے انتخابی وعدوں کے جواب دہ بھی ہو سکتے ہیں ۔ساتھ ساتھ اب تو یہ خبریں بھی آرہی ہیں کہ ملک بھر میں نصب کئے گئے سولر پینلز کے نیٹ میٹرنگ نرخوں پر نظر ثانی اور ان میں مزید کمی لانے کی تجویز بھی زیر غور ہے ۔جس پر ماہرین توانائی کا کہنا ہے کہ اس قسم کے ٹیکس کا کوئی جواز بنتا ہی نہیں ہے ۔بجلی کا بل یوٹیلیٹی کی مد میں لیا جاتا ہے اور یوٹیلیٹی بنیادی ضرورت کو کہتے ہیں ۔یہ کوئی اسراف نہیں ہے ۔ بجلی کا صارف پہلے ہی بڑا ٹیکس دے رہا ہے۔ اس کے بل میں بھی ناجانے کون کون سے تمام ٹیکس اور سرچارج لگاے ٔ جارہے ہیں ۔بظاہر لگتا یہ ہے کہ فی الحال تو اس نئے فکسڈ ٹیکس کا خطرہ وقتی طور پر ٹل گیا ہے ۔لیکن اس عندیے اور افواہ نے آنے والے وقت کے لیے عوام کو خبردار کردیا ہے کہ شاید عوام کو ذہنی طور پر تیا کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ سوچ بھی موجود ہے ۔ سب سے بڑی دکھ کی بات یہ ہے کہ یہ سب وہ حکومت کر رہی ہے جو غریبوں کو دو سو اور تیں سو یونٹ فری دینے کا وعدہ کرکے ایوانوں تک پہنچی ہے ۔وزارت توانائی کے مطابق میڈیا پر چلنے والی فکسڈ ٹیکس یا اسے بڑھانے کی خبریں درست نہیں ہیں تو پھر میڈیا سے اس طرح کی بے بنیاد سنسنی پھیلانےکی باز پرس کی جانی چاہیے کیونکہ اس طرح کی خبروں سے پہلے سے مہنگائی اورغربت کے مارے عوام میں بے چینی اور بے یقینی پھیلتی ہے ۔جو یقینا” ذہنی انتشار کا باعث بنتی ہے ۔موجودہ حکومت کی خواہشات پر ہی عوام تما م تر اپنی بچت اور جمع پونجی سولر پینل اور نیٹ میٹرنگ پر لگا چکی ہے۔ یہاں تک کہ لوگوں نے اپنے زیور بیچ کر اور ادھار لیکر یا قسطوں پر یہ مہنگا ترین کام انجام دیا ہے ۔ پنجاب حکومت غریب لوگوں کو مفت سولر پینل دینے کی بات کر رہی ہے جس سے اس میں مزید اضافہ ہوگا ۔جبکہ قومی بنک رعائتی شرح سود پر آسان اقساط کی صورت واپسی پر سولر کے لیے قرض دے رہے ہیں ۔آج تقریبا” دو لاکھ نیٹ میٹرنگ والے صارفین کی سرمایہ کاری کو تحفظ دینا حکومت وقت کی ذمہ داری بن چکا ہے ۔اس طرح کی خبروں سے سولر پینل لگوانے والوں میں عدم تحفظ کا احساس پیدا ہوگا جو اس صنعت کی حوصلہ افزائی کی بجاے ٔ اس سے متنفر کرنے کا باعث ہو گا ۔پاور ڈویژن کے مطابق اگر یہ خبر غلط اور بے بنیاد ہے تو اتنی بڑی خبر یا افواہ پھیلانے والوں کو بے نقاب کرنا ضروری ہے ۔دیکھنا یہ بھی ہے کہ اس شعبہ میں ایک بہت بڑی سرمایہ کاری کی جاچکی ہے اور مارکیٹ میں کاروباری سرگرمیوں میں اضافہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے خاص طور ہمارا زرعی شعبہ اس سے بہت مستفید ہو رہا ہے ۔خاص طور پر چولستان کے دور دراز علاقوں میں سولر ٹیکنالوجی نے زرعی انقلاب پیدا کردیا ہے جہاں سولر کے ذریعے پانی کا حصول ممکن ہو ا ہے ۔جس سے اس سال ناصرف وسیع رقبہ قابل کاشت ہوا ہے بلکہ گندم کی ریکارڈ پیدوار بھی دیکھنے میں آرہی ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ سولر ٹیکنالوجی کا یہ کارباری شعبہ اس طرح کی خبروں سے متاثر ہو جاۓ ؟اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری ملکی معیشت کو بےشمار مسائل اور ان گنت دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت پر آئی ایم ایف کا شدید دباوُ بھی دیکھنے میں آرہا ہے ۔ملکی معیشت کی بحالی کے لیے مشکل فیصلوں کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ سخت اور مشکل فیصلوں کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہوتا ہے کہ عوام مزید قربانیوں کے لیے تیار ہو جاےُ ۔سوال یہ ہے ان مشکل فیصلوں کے اثرات عام عوام کو ہی کیوں برداشت کرنے پڑتے ہیں ؟ مشکل فیصلے تو غریب عوام کو مشکلات سے نکالنے کے لیے ہوتے ہیں ۔ حکومت کی تمام تر توجہ بجلی گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کے اضافے پر ہی مرکوز کیوں ہے ؟بجلی گیس کی چوری کا سدباب اور خاتمہ ابھی تک دیکھنے میں نہیں آیا ۔بڑے بڑے نادہندگان سے وصولی نظر نہیں آتی ۔جبکہ اشرافیہ مخصوص طبقے کے مفت بجلی یونٹس ، گیس اور مفت پیٹرول کی سہولت ابھی تک بحال ہے۔ملک کی معیشت کی بحالی حکومتی ترجیح ضرور ہونی چاہیے لیکن اس کے لیے مشکل فیصلوں کے اثرات اسی فیصد غریب اور سفید پوش عوام کی بجاے بیس فیصد ٌ اشرفیہ پر زیادہ ہونے چاہیے ۔ بڑے شہروں کی پوش آبادیاں اور کو ٹھیاں دیکھیں تو یورپ اور امریکہ والے بھی حیرت زدہ رہ جاتے ہیں ۔ایک ایک گھر میں کھڑی چار پانچ گاڑیاں تو معمول کی بات ہے ۔ہمارے سینکڑوں پرائیویٹ میڈیکل کالجوں کی صرف سالانہ فیس تیس لاکھ ہوتی ہے پھر بھی داخلہ نہیں ملتا ۔آخر یہ کون لوگ ہیں اور کتنا ٹیکس ادا کرتے ہیں ؟ جبکہ بجلی کا بل ایک غریب آدمی کا پورا بجٹ ہلا کر رکھ دیتا ہے ۔ہمارے سیاستدان انتخابی مہم کے دوران ایسے ایسے وعدے کرتے ہیں جو پورے کرنا ناممکن ہوتا ہے ۔ان انتخابات میں ناجانے کتنی تحصیلوں کو اضلاع اور کتنے ہی قصبوں کو تحصیلیں بنانے کے وعدے ہی نہیں بلکہ اعلان کئے گئے ہیں ۔جو ان معاشی اور سیاسی حالات میں ناممکن نظر آتے ہیں ۔ نئے ائیر پورٹ بنانے کی بات تو کرتے ہیں جبکہ بہاولپور ائیر پورٹ کے آپریشن بند ہو چکے ہیں ۔نئی سڑکیں بنانے کے وعدے کرتے ہیں جبکہ پہلے سے موجو سڑکیں اور گلیاں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔خدارا ! پانی کے ڈیموں کے بعد سب سے سستی بجلی سورج کی اس توانائی سے ہی ملتی ہے اس پر ٹیکس لگانے کی بجاے ٔ اسے مزید بہت بنانے کی پالیسی اپنائیں یہی ہماری توانائی کی کمی پورا کر سکتی ہے اور اس سے عام آدمی کو بجلی کے بھاری بلوں سے نجات بھی مل سکتی ہے ۔بجلی کے سابقہ معاہدوں پر نظر ثانی کریں جو بغیر چلے ہر سال اربوں روپے لے جاتے ہیں اور رقم کی وصولی عام عوام سے کی جاتی ہے ۔تھوڑا نہیں بلکہ پورا سوچیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.