دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اکیس مارچ کو جنگلات کا عالمی دن منایا جاتا ہے
چند دہائی قبل تک جب ہم سفر کرتے تھے تو سڑکوں کے دونوں کناروں پر خوشنما ،شاندار اور سایہ دار درخت قطار درقطار نظر آتے تھے اور اردگرد پھلوں کے باغات دکھائی دیتے تھے
بزرگ بتاتے تھے کہ جی ٹی روڈ جو شیرشاہ سوری روڈ بھی کہلاتی ہے
کئی سو سال قبل شیرشاہ سوری نے کلکتہ سے پشاور تک تعمیر کرائی تھی۔
اس کے دونوں جانب سایہ دار درخت لگائے گئے تھے تاکہ مسافر گرمی اورسردی کی شدت سے محفوظ رہیں
اور سفر بھی خوبصورت نظارے دیکھتے ہوئے گزرے ۔
کہتے ہیں شیرشاہ سوری کے دور حکومت میں بلاوجہ درخت کاٹنا جرم سمجھا جاتا تھا
یہ وہ شجر کاری تھی جو بہت پہلے ہمارے بزرگ کر چکے تھے ۔۔
پچھلے دنوں گرمی میں بذریعہ موٹر وے لاہور جانے کا اتفاق ہوا تو احساس ہوا کہ
وہ درخت کتنی بڑی نعمت تھے
پوری موٹر وے پر سایہ نظر نہیں آتا ۔درخت تو دور کی بات پودے بھی نہیں لگائے گئے
جس سے گرمی کی شدت بڑھ جاتی ہے
انسانوں کے ساتھ ساتھ گاڑیاں بھی گرم ہوکر باربار خراب ہوتی ہیں اور ٹائرپنکچر ہونا تو معمول ہے ۔
آخر یہ سرسبز درخت اور باغات کہاں چلے گئے ؟
پہلے ہر درخت پر سفیدی کرکے ایک نمبر الاٹ کیا جاتا تھا تاکہ کوئی اسے کاٹ نہ سکے
اب درخت ہی نہیں تو نمبر کیسے الاٹ ہوگا۔درختوں کی کمی ہمیں احساس دلاتی ہے کہ ہم شجر کاری کے فروغ میں اپنا کردار اس طرح ادا نہیں کر پا رہے جسے کہ ہمارے بزرگ کر چکے ہیں
اور اس لیے ہی دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اکیس مارچ کو جنگلات کا عالمی دن منایا جاتا ہے
جس کا مقصد درختوں اور جنگلات کی افادیت اور اہمیت سے متعلق شعور اجاگر کرکے زمیں کو ماحولیاتی آلودگی بچانا ہے جو ہمارا آج کا سب سے بڑا چیلنج بن چکی ہے
اس لیے ہمیں بھی آئندہ نسلوں کی بقا کے لیے درخت لگانے کی اشد ضرورت ہے تاکہ ہم خود بھی اپنی زندگی کو محفوظ بنائیں اور آنے والی نسلوں کو بھی ایک اچھا ماحول دیکر اپنا فرض ادا کریں ۔
میں جب بھی اپنے آبائی شہر جاتا ہوں تو وہاں اپنے بچپن دوست درختوں کی تلاش ضرور کرتا ہوں تاکہ اپنے خوبصورت بیتے دنوں کی یا تازہ کر سکوں جو اب ہمارے شہر کے گلی کوچوں سے ناپید ہوچکے ہیں ۔
مجھے یاد ہے کہ شہر کے ہر گھر میں ایک یا دو پھلدار درخت ہمارے بڑے ضرور لگایا کرتے تھے جن پر بچے جھولے ڈالتے ان کی گھنی چھاوں میں کھیلتے تھے
جب میں پہلی مرتبہ اسکول گیا تو ہیڈماسڑصاحب نے مجھ سے ایک درخت کا پودہ لگوایا اور کہا اب کی آبیاری اور حفاظت تمہاری ذمہ داری ہے وہ درخت میرے ساتھ ساتھ بڑا ہوا مگر پھر کسی نئے کلاس روم کی تعمیر کے لیے کاٹ دیا گیا ۔
کل رات جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چڑیوں کو بہت پیار تھا اس بوڑھے شجر تھے
ہماری روزمرہ زندگی میں ہر چیز کا بالواسطہ یا بلا واسطہ تعلق درختوں اور جنگلات سے جڑا ہوا ہے جو پانی ہم پیتے ہیں دوائیں لیتے ہیں ،کھانا کھاتے ہیں جن گھروں میں ہم رہتے ہیں
یہاں تک کہ ہمیں سانس لینے کے لیے درکار اوکسیجن کا تعلق بھی جنگلات سے ہی بنتا ہے ۔جنگلات اور درختوں کا وجود ماحول ،معیشت اور ترقی کے لیے توانائی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ماحولیاتی آلودگی سے نجات کا ذریعہ بھی قراردیا جاتا ہے۔
جبکہ درختوں کی لکڑی اور پھلوں سے تجارتی سرگرمیاں بڑھتی ہیں درختوں کے پتوں ،پھولوں اور پھلوں سے خوراک کے ساتھ ساتھ بےشمار اشیاء کی تیاری ممکن ہو جاتی ہے
جس میں انسانی ادویات اور جانوروں کی خوراک بھی شامل ہے ۔
درختوں اور جنگلات ان کے پھولوں پھلوں اور سرسبز پتوں کی وجہ سے کو زمین کا جمالیاتی حسن بھی قرار دیا جاتا ہے
کہتے ہیں کہ قدرتی جمالیاتی حسن انسانی کمزوری بھی ہوتا ہے صحت افزاء اور قابل دید مقامات درختوں کے طفیل ہی خوبصورت لگتے ہیں ۔
ان درختوں کی سکون بخش گھنی چھاوں انسانی جسم اور صحت کے لیے بڑی اہم ہوتی ہے
جو زمینی درجہ حرارت میں کمی لانے کاباعث بنتی ہے درخت اور جنگلات بارش کی سبب بنتے ہیں
اور بارش ہماری فصلوں اور پینے کے پانی کے لیے بے حد ضروری ہوتی ہے اسی لیے درختوں کو زندگی کا نام دیا جاتا ہے ۔
درخت اور جنگل کاربن ڈائی اوکسائیڈ کو جذب کرکے اوکسیجن خارج کرتے ہیں
یہ قدرتی عمل ہمارے ماحول کی آلودگی میں کمی لانے کے ساتھ ساتھ ہمیں سانس لینے کے لیےصاف ہوا مہیا کرتے ہیں ۔
اقوام متحدہ کی قرارداد کی روشی میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں
ہر سال اکیس مارچ کو جنگلات کا عالمی دن منانے کا مقصدکراہ ارض کو ماحولیاتی آلودگی سے پاک کرنے کےلیے
جنگلات اور درختوں کی اہمیت سے متعلق شعور اجاگر اور بیدار کرنا ہوتا ہے
کہ اقتصادی ،سماجی اور صحت کے فوائد کے باوجود عالمی سطح پر جنگلات کی کٹائی کا خطرناک حد تک اضافہ دنیا کے ماحول کےلیے خطرے کی گھنٹی بنتا جا رہا ہے ۔
بڑھتی ہوئی آبادی کے پیش نظر جنگلات کو رہائشی کالونیوں میں بدلنے سے جنگلات میں تیزی سے کمی آرہی ہے
پہاڑوں پر اس کٹائی کے عمل سے شدید دریائی سیلابوں کے خطرات بڑھ رہے ہیں
اقوام متحدہ کے مطابق بڑے اور گنجان شہروں میں شجرکاری کی ضرورت بڑھتی جارہی ہے
تاکہ موسمیاتی تغیرات (یعنی کلائیمٹ چینج ) کی وجہ سے ہونے والی گرمی اور آلودگی میں کمی لائی جاسکے ۔درختوں کو پرندوں ،کیڑے مکوڑوں کی آماجگاہ سمجھا جاتا ہے اور پرندے اور
کیڑے مکوڑے ہمارے ماحول کی صفائی پر مامور ہیں درختوں کے ساتھ ساتھ
یہ بھی غائب ہوتے چلے جارہے ہیں جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔
شمالی پہاڑی علاقہ جات اور کشمیر کو قدرتی جنگلات کا علاقہ سمجھا جاتا ہے
گو چھوٹے موٹے جنگلات میدانی علاقے میں کئی ہیں لیکن پاکستان کا سب سے بڑا جنگل چھانگا مانگا ہے
یہ مصنوعی جنگل کئی ہزار ایکڑ پر سٹیم انجنوں کے لیے سستی لکڑی کے حصول کے لیے لگایا گیا تھا
جہاں جنگلی حیات پر مشتمل ایک پارک اور تفریح گاہ بھی ہے پچھلے چند سالوں سے
درختوں کی کٹائی کی باعث یہ جنگل بھی معدومی کے خطرات سے دوچار ہے ۔
ریاست بہاولپور کے عباسی حکمران جنگلات اور درختوں کے بارے میں بہت حساس واقع ہوئے تھے
اس لیے پوری ریاست میں چھوٹے چھوٹے درختوں کے جنگلات دیکھنے کو ملتے ہیں
جن میں لال سوہنڑا نیشنل پارک ساوتھ ایشا کا سب سے بڑا اور خوبصورت پارک شمار کیا جاتا ہے
جہاں ایک چڑیا گھر ،تفریحی پارک ، گھنے جنگل ،نہریں ،صحرا اور جانوروں کے تحفظ کے لیے
ایک بڑا علاقہ مختص کیا گیا ہے ۔ایسے ہی بہاولپور شہر میں جی ٹی روڈ پر
ایک بڑا جنگل جسے ذخیرہ کہا جاتا ہے اب بھی موجود ہے
لیکن یہ بھی محدود ہوتا چلا جارہا ہے ۔
پورے بہاولپور میں شجرکاری کے ساتھ ساتھ باغات بھی لگاے گئے ہیں
جو نہ صرف درختوں کی کمی پوری کرتے ہیں بلکہ قیمتی اور نایاب آموں کے لیے بھی مشہور ہیں۔
پورے بہاولپور ڈویژن میں جنگلات کے بےشما چھوٹے چھوٹ ٹکڑے نظر آتے ہیں
لیکن ان کی دیکھ بھال اور حفاظت کا اہتمام نظر نہیں آتا ۔
پاکستان میں جنگلات کا کل رقبہ بیالیس ہزار کلو میٹر بتایا جاتا ہے جو کہ
ہمارے ملک کے کل رقبے کا پانچ فیصد بنتا ہےجو دن بدن کم ہوتا جارہا ہے
جس کی بنیادی وجہ جنگلات کا بے رحمانہ قتل ،آتشزدگی اور مکانات کی تعمیر کے لیے
جنگلات کی زمین کا استعمال سمجھا جاتا ہے
اور پھر ہر سال دریا بھی قدرتی نظام کےتحت کٹائو کا کام کر ہے ہیں
کہتے ہیں کسی بھی ملک میں صحت مند ماحول اور مضبوط معیشت کے لیے
کسی بھی ملک کے پچیس فیصد رقبے پر جنگلات کو ہونا ضروری سمجھا جاتا ہے
پاکستان کا شمار اب دنیا کے ان مملک میں دوسرے نمبر پر آچکا ہے جہاں جنگلات تیزی سے ختم ہورہے ہیں ۔
جس کی وجہ جنگلات اور درختوں کی غیر قانونی کٹائی کا عروج بتائی جاتی ہے
ٹمبر مافیا اپنے تھوڑے سے لالچ کی خاطر انسانی زندگی کے لیے خطرات پیدا کرہاہے۔
آئے روز جنگلوں میں آتشزدگی کے واقعات سننے میں آتے ہیں ۔
کہتے ہیں اگر زمین سے “آکسیجن “صرف پانچ منٹ کے لیے کم ہوجائے
تو کنکریٹ سے بنی تمام عمارتیں گر جائیں گئیں کیونکہ آکسیجن انہیں اکٹھا رکھنے میں مدد گار ہے ۔
تمام سمند رسے پانی اُڑ جائے گا کیونکہ آکسیجن کے بعد صرف ہائیڈروجن رہ جائےگی ۔
ہم سب کے کانوں کے پردے پھٹ جائیں کیونکہ ہم ہوا کا اکیس فیصد دباوُ کھو دیں گے ہماری زمیں کھردری ہوجاے گی کیونکہ زمیں کا پینتالیس فیصد آکسیجن سے بنا ہے یاد رہے کہ یہ درخت جو انسانی حیات اور ہماری زمین کے پھیپھڑےسمجھے جاتے ہیں یہی تو آکسیجن پیدا کرتے ہیں
بزرگ کہتے تھے درخت اللہ کی تسبیح کرتے اور سجدہ کرتے ہیں خوشی اور مستی میں رقص بھی کرتے ہیں
اس لیے درخت لگانا صدقہ جاریہ ہوتا ہے ہماری ضرورت کی کی کوئی چیز ایسی نہیں
جو پودوں اور درختوں سے براہ راست نہ جڑی ہو ۔
حکومت کے ساتھ ساتھ عوام پر بھی یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ
وہ درخت اور جنگلات کی ضرورت کا ادراک کرتے ہوے اپنے اپنے علاقوں میں نئی شجرکاری کریں
اور ساتھ ساتھ جنگلات اور درختوں کی حفاظت کو قومی فریضہ سمجھیں
جس کے لیے د رختوں ،پودوں اور جنگلات کی حفاظت ،ماحولیاتی تحفظ اور
جنگلی حیات کو ناصرف تعلیمی نصاب کا حصہ بنانا ضروری ہے
بلکہ ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر شجرکاری کے لیے مذہبی ،اخلاقی اور
سماجی ذمہ داریوں کا احساس دلانے کے لیے ہمارا میڈیا ،مسجد ومنبر بھی کلیدی کردار ادا کرے
تاکہ آنے والی نسلیں جنگلات اور درختوں کی اہمیت کو سمجھیں اور حفاظت
کے ساتھ ساتھ ان کی افزائش کا اہتمام کرنے کو اپنا قومی فریضہ تصور کریں۔
آئیں اس مرتبہ جنگلات کے عالمی دن کے موقعہ پر یہ عہد کریں کہ ہم میں سے ہر شخص کم ازکم ہر سال دو درخت نہ صرف لگائے گا بلکہ ان کی پرورش اور افزائش کا اہتمام کرکے اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کو محفوظ بنائے گا ۔
درختوں سے محبت کریں یہ ہمیں زندہ رکھنے میں معاون ہوتے ہیں ۔
اپنی زندگیوں کو خوبصورت و دلکش بنانے اور ماحول کی رعنایاں واپس لانے کے لیے پوری قوم کو مل کر شجر کاری کا فریضہ ادا کرنا ہوگا ۔
احساس کے انداز
تحریر ؛۔ جاویدایازخان
21/03/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-scaled.webp