وزیر اعظم شہباز شریف کی روس کے صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات

آج کا اداریہ

11

وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ روز روس کے صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات کی ہے۔ جس میں صدر پوٹن نے شہباز شریف کو بتایا کہ پاکستان اب بھی روس کا روایتی ساتھی ہے۔
شہباز شریف نے پوٹن سے کہا کہ وہ بھارت اور روس کے تعلقات کا احترام کرتے ہیں لیکن پاکستان بھی روس کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔‘ جب شہباز شریف یہ کہہ رہے تھے تو صدر پوٹن اثبات میں سر ہلا کربتائید کرت جا رہے تھے۔
دفترِ خارجہ کی پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے دوران صدر پوٹن نے پاکستان میں حالیہ سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان ان چیلنجز پر قابو پا لے گا۔‘
دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ صدر پوٹن نے وزیراعظم شہباز شریف کو روس میں نومبر میں ہونے والے ایس سی او اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی دی ہے۔
جبکہ شہباز شریف نے ایکس پر ملاقات کے بعد لکھا ’پاکستان اور روس مشترکہ طور پر تعلقات کو مضبوط بنانے کی جانب بڑھ رہے ہیں تاکہ ہمارے عوام کے مفاد کے ساتھ ساتھ خطے میں امن اور خوشحالی کو بھی فروغ دیا جا سکے۔‘
بھارتی دفاعی امور کے ماہر اور تجزیہ کار پروین سہانی نے اس ملاقات کے حوالے سے ایکس پر لکھا ’انڈیا کی ترقی کے لیے یہ سمجھ لینا بہتر ہو گا کہ نئے عالمی نظام میں طاقت کا مرکز اب گلوبل ساؤتھ کی جانب منتقل ہو چکا ہے۔‘
’اس منظرنامے میں انڈیا کو اپنے لیے اور گلوبل ساؤتھ کی اجتماعی ترقی کے لیے پاکستان، چین، روس، ایران اور دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں ’ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے یہ سمجھ لیا ہے اور انڈیا کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔
انھوں نے لکھا ’اب پاکستان پوٹن، شی جن پنگ اور کم جونگ ان کے ساتھ فرنٹ سٹیج پر کھڑا ہے۔‘ انھوں نے یہ بھی لکھا ’یہ نریندر مودی کی تباہ کن خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔‘
ایک اور بھارت تجزیہ کار مہت نے لکھا ’انڈیا کو فوری طور پر ایک تعلیم یافتہ وزیراعظم کی ضرورت ہے جو عالمی حالات کو سمجھتا ہو اور صحیح قیادت کر سکے۔‘
معروف تجزیہ کاراور صحافی عاصمہ شیرازی نے بھی وہی ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ’کیا ہی طاقتور منظر ہے۔۔۔ وزیراعظم شہباز شریف اُن خصوصی مہمانوں میں شامل ہیں جنھیں وکٹری ڈے کی تقریب میں مدعو کیا گیا ہے، دیگر میں روسی صدر اور شمالی کوریا کے صدر کم شامل ہیں۔بھارتی وزیراعظم مودی کو اس تقریب میں مدعو نہیں کیا گیا۔‘
انڈیا کے ڈاکٹر نیمو یادیو نے ایکس پر تبصرہ کیا ’پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف پوٹن، شی اور کم کے ساتھ فرنٹ سٹیج شیئر کر رہے ہیں۔ پاکستان امریکہ کے قریب بھی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ ممالک انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘
تھنک ٹینک بروکنگز انسٹیٹیوشن کی سینئر فیلو تنوی مدن نے ایکس پر شہباز شریف اور پوتن کے درمیان ہونے والی گفتگو کا ویڈیو کلپ پوسٹ کیا اور لکھا کہ ’میمز اپنی جگہ، مگر حقیقت کی دنیا الگ ہے۔‘
’جہاں پوتن بیک وقت کئی محاذوں پر متوازن کردار ادا کر رہے ہیں، پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات میں کہتے ہیں کہ وہ روس اور پاکستان کے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انھیں مزید ’مضبوط و متحرک‘ بنانے کی بات کرتے ہیں۔‘
وہ لکھتی ہیں ’یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پہلگام کے بعد ٹرمپ کی وجہ سے روس کا مؤقف بیشتر لوگوں کی نظر سے اوجھل رہ گیا تھا۔‘
تنوی مدن کا ماننا ہے کہ پہلگام میں حملے کے بعد روس نے انڈیا کو مایوس کیا لیکن کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔
تھنک ٹینک او آر ایف میں انڈیا روس تعلقات کے ماہر الیکسی زخاروف نے ایکس پر شہباز شریف اور پوٹن کے درمیان ملاقات کے بارے میں لکھا ’مودی کے چین جانے کے بعد، پوٹن اور شہباز شریف نے دو طرفہ ایجنڈے پر تبادلہ خیال کیا۔‘
پوٹن نے پاکستان کو روایتی پارٹنر قرار دیا، تجارت بڑھانے اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تعاون بڑھانے کی بات کی اور وزیراعظم شریف کو ماسکو کے دورے کی دعوت بھی دی۔‘
ملاقات میں وزیراعظم شریف نے پوٹن کو بتایا کہ گذشتہ سال دوطرفہ تجارت میں اضافہ روس سے تیل کی درآمد کی وجہ سے ہوا۔ انھوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ دونوں جانب سے متعدد وفود کے تبادلوں کے ساتھ ساتھ زراعت، سٹیل اور ٹرانسپورٹ خصوصاً بیلا روس-پاکستان کوریڈور میں نئے معاہدے ہوئے ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے پوٹن کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے پاکستان کی حمایت کی اور جنوبی ایشیا میں متوازن کردار ادا کیا۔
اس موقع پر شہباز شریف نے کہا: ’ہم آپ کے بھارت کے ساتھ تعلقات کا احترام کرتے ہیں، یہ بالکل درست ہے، لیکن ہم بھی روس کے ساتھ بہت مضبوط تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘
17 مارچ 2016 کو اس وقت کے روسی سفیر برائے پاکستان ایلکسی ڈیڈوف نے انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد میں پاکستان اور روس تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا تھا ’دورہ صرف رسمی نہیں ہونا چاہیے، دورے کے لیے کوئی مضبوط وجہ ہونی چاہیے۔ اگر مضبوط وجہ ہو تو دورہ ضرور ہو گا۔ لہذا تیاری اور معاہدے ضروری ہیں۔
وزیر اعظم کی روسی صدر سے ملاقات کو بھارت سمیت کئی ممالک اہم قرار دے رہے ہیں۔ اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ حالیہ مہینوں میں پاکستان کا اقوام عالم سے دوستی اور تعلقات کا گراف بڑھا ہے جبکہ بھارت بیک فٹ پر ہے۔ بھارت کے اندر سے دہلی کے خارجہ پالیسی کو ناکارہ اور نےمعنی قرار دیا جا رہا ہے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پالیسیوں کو ہدف تنقید بنایا جا رہا ہے جبکہ شہباز شریف کی مقبولیت میں اصافہ ہورہا ہے۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.