میرۓ ایک مستقل قاری نے میرےکالم ” محبت اور ہمدردی ” سے متاثر ہوکر سوال کیا ہے کہ کیا واقعی جنگ اور محبت میں سب کچھ جائز ہوتا ہے ؟ یہ انگریزی مقولہ جو ایک قدیم کہاوت ہے کہاں تک درست ہے ؟ جبکہ اسلامی اور انسانی اصول اس سے متضاد ہیں جبکہ اس مقولہ کے مطابق تو انسان محبت اور جنگ دونوں صورتوں میں جہاں عام اخلاقی اصول یا معاشرتی قوانیں کمزور پڑ جاتے ہیں۔اس مقولے کا مطلب یہ ہے کہ ان دونوں صورتوں اور حالات میں انسان اپنی جذباتی شدت یا بقا کی خاطر وہ سب کچھ کر سکتا ہے جو عام حالات میں ناقابل قبول ہوتا ہے ؟ یہ صرف میرے ایک قاری کا سوال نہیں بہت سے لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ کیوں لوگ اپنی غلط سوچ اور منفی اقدام کو درست ثابت کرنے کے لیے ایسے انگریزی مقولوں کا سہارا لیتے ہیں ؟عام زندگی میں جو جھوٹ ،دھوکہ یا تشدد ناقابل قبول ہہوتے ہیں انہیں محبت اور جنگ میں بعض اوقات “ضرورت” کیوں سمجھ لیا جاتا ہے ؟ چرچل سے ماخوذ اس محاورے نے ایک غلط سوچ کو جنم دیا جسے اپنے مطلب کے لیے ضرورت مندوں نےپناہ سمجھ کر فوری اپنا لیا حالانکہ محبت ہو یا جنگ جب آپ کے پاس طاقت ہو کنٹرول ہو تو پھر بات جائز ناجائز کی نہیں رہتی بات پھر آپ کے ظرف کی ہوتی ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہمارے لیے جنگ اور محبت دونوں کی متعین حدود ہیں جن سے تجاوز جائز نہیں ۔جنگ کے اصول اور محبت کے پیمانے الگ الگ ہیں جن کا خیال ہر صورت رکھنا پڑتا ہے ۔
ٹیپو سلطان شہید کے اقوال ہمیشہ ہماری تاریخ کا حصہ رہے ہیں ۔”شیر کی ایک دن کی زندگی گیڈر کی سو سالہ زندگی سے بہتر ہے ” یہ متاثر کن قول تو ہم اپنے اسکول کی دیوار پر لکھا دیکھا کرتے تھے ۔کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ایک سپاہی نے ٹیپوسلطان شہید سے پوچھا کہ کیا یہ درست ہے کہ “جنگ اور محبت میں سب جائز ہوتا ہے ؟ ” تو ٹیپو سلطان شہید نے جواب دیا نہیں یہ انگریزوں کی خود اخذ کی گئی بات ہے جو دراصل اپنی غلطیوں پر پردہ ڈالنے کا بہانہ ہے ۔ہماری بطور مسلمان روایات تو یہ ہیں کہ محبت اور جنگ میں جو کچھ بھی کیا جاۓ منصفانہ ہونا چاہیے ۔ٹیپو سلطان شہید کے یہ الفاظ ان کے حقیقی ہیرو اور مسلمان سپہ سالار ہونے کی علامت اس وقت بھی تھے اور آج بھی ہیں ۔ہماری زندگی مین زیادہ تر جذبات کے شدید لمحوں میں اس بارے میں کئی محاورے استعمال ہوتے ہیں جیسے ” جب دل لگا بیٹھے تو سوچنا نہیں کہ صیح کیا ہے اور غلط کیا ہے ؟ ” جنگ میں ہمیں اپنی بقا کے لیے ہر ہتھکنڈہ اپنانا چاہیے ” لیکن حقیقت میں ایسے فقرۓ کبھی سچ کی کسوٹی پر درست ثابت نہیں ہوتے ۔”جنگ اور محبت میں سب جائز ہے ” ایک ادبی و جذباتی یا شاعرانہ اظہار ضرور ہو سکتا ہے مگر اخلاقی ،قانونی اور انسانی اصولوں کی روشنی میں یہ بات قطعی قابل قبول نہیں ہے ۔
جنگ خواہ کتنی بھی ناگزیر کیوں نہ ہو پھر بھی انسانی تہذیب نے کچھ اصول و ضوابط بناۓ ہیں جنیوا کنونشن اس کی ایک مثال سامنے ہے ۔جنگ میں واقعی سب جائز نہیں ہوتا۔غیر مسلح افراد ،زخمیوں اور قیدیوں کے حقوق محفوظ ہوتے ہیں ۔شہری آبادی کو نشانہ بنانا ،ہسپتالوں یا عبادت گاہوں پر حملہ کرنا ممنوع ہوتا ہے ۔کیمیائی یا حیاتیاتی ہتھیاروں کا استعمال غیر قانونی قرار پایا ہے ۔لہذا اگر کوئی “سب جائز ” سمجھ کر ظلم ،لوٹ مار یا انسانی حقوق کی پامالی کرۓ گا تو وہ مجرم کہلاۓ گا ہیرو نہیں کہلاۓ گا ۔آج اسرائیل کی غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف عالمی اور اخلاقی قوانین کی دھجیاں بکھیرنے پر پوری دنیا میں اسے نفرت کا نشان بنا دیا گیا ہے ۔ہمارا مذہب اسلام تو اس بارے میں ان سے بھی سخت ہدایات دے چکا ہے کہ “کسی ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے “اب ذرا غور کریں کہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں اگر جنگ میں سب کچھ جائز ہو تو پوری دنیا منٹوں میں ختم ہو سکتی ہے ۔نیو کلیر کی تباہی دنیا کو سیکنڈوں میں ہی ملبے کا ڈھیر بنا سکتی ہے ۔
دوسری جانب محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے مگر یہ محبت اگر کسی کی زندگی تباہ کردے یا کسی رشتے کو پامال کردے یا کسی کا اعتماد توڑ دے تو وہ صرف خود غرضی کہلاۓ گی محبت ہرگز نہیں ہو سکتی ۔ذرا سوچیں اگر کوئی نام نہاد عاشق “محبت ” کے نام پر دھوکہ دے اور کسی معصوم کی زندگی تباہ کردے یا کسی شادی شدہ عورت کو اس کے شوہر سے جدا کردے یا والدین کی بےعزتی کر ےتو کیا یہ واقعی محبت ہے یا پھر جھوٹی انا اور ہوس ہے ۔یکطرفہ محبت کو زبردستی منوانا ،تعاقب کرنا یا حراساں کرنا یہ سب کبھی “جائز ” نہیں بلکہ قابل گرفت جرم ہے ۔ محبت کا مطلب یہ کب ہے کہ اگر کوئی میرا نہیں تو کسی کا بھی نہیں ؟ محبت تشدد اور تیزاب سے چہروں کو داغنے کا نام ہرگز نہیں ہے ۔پسند اور محبت کرنے میں ہمیں اعتدال کا دامن نہیں چھوڑنا اور اپنی اسلامی ،اخلاقی ،معاشرتی روایات کا ہر لمحہ خیال رکھنا ہے ۔جنگ ہو یا محبت ہر چیز کے اصول ہوتے ہیں ۔ مگر ہوس اور محبت کبھی ایک نہیں ہو سکتے اگر ہم ان دونوں میں سب کچھ جائز سمجھیں گے تو ہمارے تمام تر رشتے اور اخلاقی ومذہبی اصول پامال ہو جائیں گے ۔آے دن محبت کے گمراہ کن جھوٹے پیمانے بےشمار ماں باپ کی عزت کا جنازہ نکالتے ہیں اور انہیں زندہ درگور کر دیتے ہیں ۔جنگ ہو یا محبت ہمیں افسانوی نظریات سے باہر آنا ہو گا ۔میرے ایک استاد فرماتے تھے کہ ماں باپ یا اولاد کی محبت کو ٹھکرانے والا کوئی عمل کم ازکم محبت کہلانے کا حقدار ہرگز نہیں ہو سکتا ۔اپنے ماں باپ کی محبت سےبھی بڑھ جانے والی محبت جہالت تو ہوسکتی ہے محبت ہرگز نہیں ہے ۔ محبت حرص وہوس سے بالا تر پاکیزہ جذبوں کا نام ہے باقی اگر کچھ ہے تو سب بےوقوفی ،جھوٹ اور گمراہی ہے اور گمراہی کے گڑھے بڑے گہرے ہوتے ہیں جو ان میں گر جاےکبھی باہر نہیں نکل پاتا ۔یاد رہے کہ جنگ ہو یا دنیاوی محبت کسی بھی صورت میں سب کچھ جائز ہرگز نہیں ہوتا ہے ۔صدیوں کے انسانی شعور اور مذہبی احکامات نے یہ طے کیا ہے کہ ہماری جنگوں کے بھی کچھ اصول ہیں اس کی حدود قیود بھی متعین ہیں اور ہماری محبتوں کی بھی حدیں اور پیمانے قائم ہوتے ہیں جن کا خیال ہر صورت رکھنا پڑتا ہے ۔آج ہمارے لوگوں نے تو سیاست کو بھی جنگ کا روپ دے دیا ہے اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہاں بھی جنگ کی طرح شاید سب کچھ جائز ہے لیکن سیاست کبھی جنگ نہیں ہوتی یہ تو باہمی نفرت اور تقسیم کے خاتمے اور ملکی اتحاد و اتفاق کے لیے یکجہاتی اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور اختلاف راے کا احترام کرنے کا نام ہے ۔اس میں بھلا سب کچھ کیسے جائز ہو سکتا ہے ؟ سیاست کو سیاست رہنے دیں اسے جنگ نہ بنائیں ۔جنگ ہو ،محبت ہو یا پھر سیاست ہر موقع پر سمجھداری سے جائز اور اصولی موقف اپنائیں ۔محبت ،جنگ اور سیاست ان سب میں انسانیت اور مذہب کے مقرر کردہ زریں اصولوں کی پاسداری ضروری ہے ۔کیونکہ “جدا ہو دیں سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی “