عدل بمقابلہ انصاف  ..ایک فکری مغالطہ

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

13
عدالت کے کمرے میں ہلکی سی سرگوشیاں سنائی دے رہی تھیں۔ ایک طرف ایک غریب مزدور کھڑا تھا جس کے چہرے پر پسینے کی بوندیں اور آنکھوں میں خوف کی لکیریں صاف دکھائی دیتی تھیں۔ اس کا قصور یہ تھا کہ اس نے اپنی سائیکل غلط جگہ کھڑی کر دی تھی۔ دوسری طرف ایک بڑے صنعتکار کا وکیل فائلیں سنبھالے مسکرا رہا تھا کیونکہ اس کے مؤکل نے اسی روز ایک بڑے ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی کی تھی۔ جج نے دونوں کو ایک ہی جرم میں 2000 روپے جرمانہ سنایا۔ فیصلہ سنتے ہی صنعتکار نے جیب سے نوٹ نکالا اور ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کمرہ عدالت سے باہر نکل گیا۔ مزدور نے سر جھکا لیا  اس کے لیے یہ 2000 روپے آدھے مہینے کی روٹی اور بچوں کے دودھ کاٹ لینے کے مترادف تھے۔
قانون کے مطابق یہ “انصاف” تھا، لیکن حقیقت میں یہ ظلم تھا۔
ہم میں سے اکثر نے بچپن سے ایک جملہ سن رکھا ہے: “انصاف ہونا چاہیے”۔ یہ جملہ اتنا دلکش ہے کہ سننے والا بلا جھجک اثبات میں سر ہلا دیتا ہے۔ مگر کیا ہم نے کبھی سوچا کہ قرآنِ کریم میں یہ لفظ موجود ہی نہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں انصاف کا نہیں عدل کا حکم دیا ہے۔
عدل اور انصاف کے درمیان فرق اتنا بنیادی ہے کہ اس کو نہ سمجھنا صدیوں سے ہمارے معاشروں کو ظالمانہ بنا رہا ہے۔ انصاف کا عام مطلب ہے سب کو برابر دینا۔ یہ بظاہر خوشنما لگتا ہے، مگر کئی مواقع پر یہ عملی طور پر ظلم بن جاتا ہے۔ عدل کا مطلب ہے ہر شخص کو اس کی ضرورت، حیثیت اور صلاحیت کے مطابق دینا۔
سوچیے، اگر تین افراد ہیں  ایک طاقتور، ایک درمیانہ، اور ایک کمزور۔ آپ سب کو 10، 10 اینٹیں اٹھانے کا حکم دیتے ہیں، تو کاغذ پر یہ “انصاف” ہے۔ لیکن طاقتور یہ بوجھ آسانی سے اٹھا لے گا درمیانہ تھوڑا تھک جائے گا، اور کمزور شاید بیمار پڑ جائے۔ عدل یہ ہے کہ طاقتور کو 15، درمیانے کو 10، اور کمزور کو 5 اینٹیں دی جائیں، تاکہ ہر ایک کی طاقت اور برداشت کے مطابق ذمہ داری ہو۔
اسی اصول کو تعلیم میں دیکھیں۔ ہم امتحان میں سب طلبہ کو ایک جیسے سوالات دے کر مطمئن ہو جاتے ہیں کہ ہم نے “برابری” کر دی۔ مگر کیا نابینا ذہین اور جسمانی معذور طلبہ کی صلاحیتیں یکساں ہیں؟ ایک نابینا طالب علم کو وہی سوال دینا جو بصارت رکھنے والے کو دیا جائے انصاف تو ہے مگر حقیقت میں اس کے ساتھ زیادتی ہے۔ عدل یہ ہے کہ ہر طالب علم کا پرچہ اس کی استعداد اور حالات کے مطابق ہو۔
یہی فرق سزاؤں اور قوانین میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ پاکستان میں اگر ایک رکشے والے اور ایک مرسیڈیز والے دونوں پر یکساں 2000 روپے جرمانہ کیا جائے، تو بظاہر انصاف ہے، لیکن عملی طور پر یہ ظلم ہے۔ ایک کے لیے یہ جرمانہ مہینے کے اخراجات کا بڑا حصہ ہے، جبکہ دوسرے کے لیے جیب سے نکلنے والا ایک معمولی سا نوٹ۔
فن لینڈ جیسے ممالک میں یہ عدل قائم ہے کہ جرمانہ آمدنی کے تناسب سے ہوتا ہے  مزدور چند یورو دیتا ہے، اور امیر لاکھوں۔ اس طرح قانون سب کے لیے ایک ہے، مگر سزا ہر شخص کی مالی حیثیت کے مطابق ہے۔ یہی حقیقی عدل ہے۔
ہمارے ہاں اس فرق کو نظرانداز کر کے معاشرے میں برابری کے نام پر نابرابری کو نافذ کیا جاتا ہے۔ ہم سب کو ایک سا پرچہ، ایک سا قانون، ایک سا جرمانہ دیتے ہیں، اور پھر حیران ہوتے ہیں کہ کیوں کمزور ہمیشہ دب جاتے ہیں اور طاقتور ہمیشہ بچ نکلتے ہیں۔
یاد رکھیے! برابری ہر جگہ اور ہر حال میں انصاف نہیں ہوتی۔ بعض اوقات برابری خود ظلم کی سب سے مہذب شکل بن جاتی ہے۔ عدل کا مطلب ہے کہ ہر ایک کو وہ دیا جائے جو اس کے لیے مناسب اور ضروری ہے — نہ کم، نہ زیادہ۔ یہی قرآن کا حکم ہے اور یہی ایک منصفانہ معاشرے کی بنیاد۔
⁠”إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالإِحْسَانِ”
بے شک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ (النحل: 90)
جب تک ہم عدل کے اس قرآنی اصول کو اپنے قانون، تعلیم، معیشت اور معاشرت میں نافذ نہیں کریں گے، ہم ہر دن نئے ظلم کو “انصاف” کا نام دے کر سہتے رہیں گے۔ یاد رکھیں انصاف صرف کاغذ پر خوشنما دکھائی دیتا ہے، مگر عدل زمین پر زندگی کو خوشحال بناتا ہے۔ ایک معاشرہ عدل سے قائم رہتا ہے محض انصاف سے نہیں۔
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.