ہم نیک و بد حضور کو سمجھائے جاتے ہیں

اج کا اداریہ

6

پاکستان تحریک انصاف نے مذاکرات کی دعوت ٹھکرا کر ایک بارپھر حکومت کیخلاف تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے
جبکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کی بحالی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
الیکشن کمیشن نے جنرل نشستوں پر کامیاب امیدواروں کو تحریک انصاف کا قرار دینے کا نوٹیفکیشن بھی واپس لے لیا ہے دوسری جانب
پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن کے 26 معطل ارکان کو ڈی سیٹ کرنے کا ریفرنس الیکشن کمیشن پاکستان میں دائر کر دیا گیا ہے۔ اس صورت حال کا جائزہ لینے کیلیے پاکستان تحریک انصاف کی قیادت نے سرجوڑ لیے گزشتہ روز اسلام میں منعقدہ اجلاس میں خصوصی نشستوں اور پنجاب اسمبلی کی صورت حال پر بھی غور کیا گیا۔ذرائع کے مطابق قیادت نے دونوں معاملات کو سنجیدگی سے حل کے متقاضی قرار دیاجس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی صفوں میں بے چینی کی جو صورتحال دکھائی دے رہی ہے ‘ اس پر پارٹی میں تشویش کی لہریں پیدا ہونا ایک فطری امر ہے تاہم ایسا لگتا ہے کہ پارٹی حلقوں خصوصاً بانی تحریک ا نصاف صورتحال سے بہت زیادہ متاثر اور متفکر ہیں اور انہوں نے گزشتہ روز محرم الحرام(عاشورہ محرم) کے بعد حکومت کے خلاف تحریک چلانے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے ہماری دانست میں ہوش کی بجائے جوش کو مقدم رکھا ہے ‘ اس میں قطعاً شک نہیں کہ پارٹی کے لئے اس عدالتی فیصلے کے بعد حالات کسی بھی طور حوصلہ افزاء نہیں رہے اور وہ ورکروں کو سڑکوں پرلا کر ایک بار پھر ملک کے اندر صورتحال کواپنے حق میں کرنے کی کوشش کر رہے یہں تاہم ہمیں نہیں لگتا کہ وہ اس بار بھی اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکیں گے اس کی کچھ وجوہات ہیں سب سے اہم وجہ تو یہ ہے کہ فیصلہ حکومت کا نہیں بلکہ اعلیٰ عدلیہ کا ہے جس میں تمام متعلقہ فریقوں کو سننے کے بعد ہی جن میں تحریک انصاف ‘ سنی اتحاد کونسل اورحکومتی اتحاد شامل تھے عدالت عظمیٰ نے دستیاب حقائق ‘ وکلاء کے دلائل اور دیگر حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے حتمی فیصلہ صادر کیا اس لئے اس حوالے سے اعتراضات کے دائرے میں حکومت کو ہر گز نہیں لایا جاسکتا اور ابھی تحریک کے پاس نظر ثانی میں جانے کی گنجائش بھی موجود ہے اور اس حوالے سے تحریک نے بعض اطلاعات کے مطابق اس فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے درخواست دائر بھی کردی ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ اس فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے مختلف ایوانوں میں موجود اراکین کی حیثیت”آزاد” کے زمرے میں آگئی ہے حالانکہ تحریک انصاف کے موجودہ چیئرمین بیرسٹر گوہر نے ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک کے اراکین آزاد نہیں ہیں بلکہ وہ سنی اتحاد کونسل کے اراکین کہلائیں گے تاہم واقفان حال اور آئینی و قانونی ماہرین ان کی اس رائے سے اتفاق کرنے کو تیار نہیں ہیں کیونکہ بقول ان ماہرین کے جب سنی اتحاد کونسل کے اپنے سربراہ جانے آزاد حیثیت میں الیکشن لڑا تو تحریک کے جملہ اراکین کیسے سنی اتحاد کونسل کے ممبران قرار دیئے جا سکتے ہیں ؟ بہرحال یہ تو قانونی موشگافیاں ہیں اور اس حوالے سے بھی فیصلہ عدالت عظمیٰ ہی کرسکتی ہے تاہم نظر بہ ظاہر بیرسٹر گوہر کا استدلال زیادہ وزنی نہیں دکھائی دیتا ‘ تیسری وجہ یہ ہے کہ اس فیصلے کے آنے کے بعد تحریک انصاف کی صفوں میں جو کھلبلی مچی ہوئی نظر آتی ہے اور بعض اطلاعات کے مطابق اس جماعت کے (اب آزاد) اراکین کی ایک قابل ذکر تعداد(اس ملک کی روایتی سیاست کے عین مطابق) پرتولتے ہوئے دوسری جماعتوں میں جاے کے لئے بے چین ہے جس کی وجہ سے تحریک انصاف کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور اس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ پی ٹی آئی کے سینئر ترین اسیر رہنمائوں نے پارٹی قیادت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کرے ‘ شاہ محمود قریشی ‘ محمود الرشید ‘ یاسمین راشد ‘ اعجاز چوہدری اور عمر سرفراز چیمہ نے ایک کھلے خط کے ذریعے پارٹی قیادت کو مشورہ دیا ہے کہ ملکی تاریخ کے اس بدترین بحران سے نکلنے کا واحد راستہ مذاکرات ہیں اس حوالے سے سیاسی اور مقتدرہ کی سطح پر بات چیت ہونی چاہئے دوسری جانب تحریک انصاف کی پارلیمانی پارٹی نے ارکان اسمبلی سے دوبارہ حلف لینے کے لئے اسلام آباد میں اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں خیبر پختونخوا اسمبلی کے 35 آزاد ارکان سے دوسری جماعتوں میں شامل نہ ہونے کا حلف لیا جائے گا درایں حالات اگر پارٹی کے بانی اب بھی اپنے موقف پر قائم ہوتے ہوئے سخت رویہ رکھنے پر بضد ہیں اور عشرہ محرم کے بعد پارٹی کے کارکنوں کوسڑکوں پر لا کر اپنے مطالبات منوانے میں دلچسپی رکھتے ہیں تویقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ ان کی جماعت کے تمام ممبران پارلیمنٹ(ملک بھر میں) اپنے کارکنوں کو زیادہ بڑی تعداد میں گھروں سے نکالنے اور احتجاج کا ڈول ڈالنے میں کامیاب ہو سکیں گے خصوصاً ماضی میں جس طرح خیبر پختونخوا کے وسائل کو ان احتجاجی مظاہروں میں جھونک دیا جاتا تھا اور پھر بھی مقصد کے حصول میں کبھی کامیابی نہیں مل سکی تھی موجودہ تبدیل ہوتے ہوئے حالات میں یہ حربہ بھی کارگر ہوسکے گا اس لئے بانی تحریک اگر اپنی ہی جماعت کے سینئر رہنمائوں کے مشورے پرعمل کرتے ہوئے حکومت سے مذاکرات کے لئے سوچیں تو اس سے نہ صرف پارٹی کے لئے بہتری کے دروازے کھل سکتے ہیں بلکہ ملک کو باہم مل کر ترقی کی راہ پر گامزن بھی کیا جاسکتا ہے ہم نیک وبد حضور کوسمجھائے دیتے ہیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.