امریکہ کا عالمی امن پر حملہ ؟

تحریر: پیر مشتاق رضوی

2

کل تک ٹرمپ یہ کہہ رہے تھے کہ ایران پر حملے کے بارے میں دو ہفتوں بعد فیصلہ کریں گے ایران سے مذاکرات کرتے ہیں وہ کیا کہتا ہے؟ لیکن اچانک گذشتہ رات کی تاریکی میں امریک نے ایرانی جوھری تنصیبات پر حملے کر دیۓ ٹرمپ کا یہ کہنا کہ ایران پر یہ بڑا حملہ تھا ایرانی جوھری تنصیبات پر امریکی بمبار طیاروں نے بھرپور حملہ کیا ایرانی جوہری مرکز فردو کو مکمل طور پر تباہ کر دیا گیا دنیا میں کوئی فوج ایسا نہیں کر سکتی جو ہم نے کیا ٹرمپ نے مزید دھمکی دی کہ “ایران کو اب امن قائم کرنا چاہیے اگر ایران باز نہ ایا تو مزید بڑے حملے کیے جائیں گے اور ایران کو سانحہ سے دوچار کر دیا جائے گا”۔کل تک دنیا یہ سوچ رہی تھی کہ شاید امریکی صدر ٹرمپ نے ایران پر حملے کا پروگرام مؤخر کر دیا ہے جبکہ عالمی طاقتوں بشمول چین اور روس نے امریکہ کو ایران پر حملہ کرنے سے باز رکھنے کے لیے سخت مزاحمتی بیانات جاری کیے تھے اور ایسا لگتا تھا کہ امریکہ سوچنے پر مجبور ہو گیا ہے کیونکہ گزشتہ ہفتے جی سیون کے اجلاس میں امریکی دباؤ پر یورپی ممالک نے ایران کی جوہری پروگرام کے خلاف قرارداد منظور کی امریکی صدر ٹرمپ جی سیون کے اجلاس کو اچانک چھوڑ کر واپس امریکہ اگۓ تھے ایسا لگتا تھا کہ ٹرمپ ایران کے خلاف فیصلہ کن کاروائی کرنا چاہتے ہیں جی سیون کے اجلاس سے واپسی پر ٹرمپ نے یہ برملا کہا تھا کہ اب میں ایران سے مذاکرات کے موڈ میں نہیں ہوں اسرائیل ایران جنگ بندی نہیں بلکہ جنگ ختم کرائیں گے ٹرمپ نے ایرانیوں کو بھی بار بار سنگین دھمکیاں دیں کہ وہ تہران خالی کر دیں اس موقع پر ایک امریکی ترجمان کا یہ کہنا قابل ذکر تھا کہ ٹرمپ کے ذہن میں کیا کچھ چل رہا ہے کسی کو نہیں پتہ؟ وہ سیکنڈوں میں فیصلہ کر سکتے ہیں بعدازاں عالمی سطح پر سنگین ہنگامی حالات میں دنیا نے تبدیلی دیکھی کہ ٹرمپ نے بظاہر عالمی دباؤ کے پیش نظر ایران پر حملہ کرنے کے فیصلے کو موخر کر دیا ہے لیکن یہ ٹرمپ کی ایک گہری چال تھی انہوں نے دنیا کو دھوکے میں رکھا اور اپنی مکار حکمت عملی کسی پر ظاہر نہ ہونے دیا حالانکہ اس دوران پاکستان کے آرمی چیف فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ٹرمپ کی ملاقات نہایت اہمیت کی حامل رہی ٹرمپ کی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے طے شدہ ایک گھنٹہ کی ملاقات دو گھنٹے تک جاری رہے اس دوران اسرائیل اور ایران جنگ کے پس منظراور پیش منظر پر بھی ضروری تبادلہ خیال ہوا ہوگا جبکہ پاکستان کی طرف سے یہ موقف بھی اپنایا گیا کہ پاکستان ایران کی مضبوط حمایت جاری رکھے گا جبکہ اسرائیلی جاہلیت کے خلاف اسلامی ممالک بھی متحد نظر آ رہے تھے اس تناظر میں مبصرین نے یہ معروضی نتیجہ اخذ کیا کے ٹرمپ ایران پر حملے میں جلد بازی سے کام نہیں لیں گے وہ ضرور سوچ و بچار کریں گے لیکن یہ سارے تجزیے اس وقت دھرے کے دھرے رہ گئے جب امریکہ نے ایران پر براہ راست حملہ کر دیا اور جنگ میں کود پڑب، سچ ہے کہ ٹرمپ کے ذہن میں کیا چل رہا تھا کسی کو معلوم نہیں تھا لیکن حالات اور واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ ایران پر حملہ کرنے سے قبل ٹرمپ نے عالمی دباؤ اور مسلم ممالک کے وقتی اتحاد بالخصوص ایران کی پاکستان کی حمایت پر خوب وغوض کیا ہوگا جبکہ ایران پر امریکہ کے حملے سے ایک دن قبل استنبول میں اسلامی وزرائے خارجہ کی کانفرنس (OIC ) کا اجلاس جاری تھا جس میں ایران پر ممکنہ امریکی حملے کے بارے کوئی واضح لائحۀ عمل اختیار نہ کیا گیا اس موقع پر ترکی کے صدر طیب اردگان نے اسلامی ممالک کو اختلافات بھلا کر متحد ہونے پر زور دیا کانفرنس میں ایران کی مکمل حمایت کی گئی اور اسرائیلی جارحیت کو اقام متحدہ کی چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا گیا امریکی صدر ٹرمپ نے اسلامی ممالک کی طرف سے ایران کی حمایت کو زیادہ اہمیت نہ دی جبکہ چین کو روکنے کے لیے اور پاکستان کو دباؤ میں لانے کے لیے امریکہ کا ایران پر حملہ کرنا ضروری تھا یہ امر بھی باعث حیرت ہے کہ ٹرمپ نے بار بار پاکستان کی تعریف کی اور فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے ملاقات کو ایک اعزاز قرار دیا دراصل وہ پاکستان کو دانہ ڈال کر ایران کی حمایت سے نیوٹرلائز کرنا چاہتے تھے اور ایران پر حملہ کر کے پاکستان کی حمایت کو ڈیفیوز اور کنفیوز کر دیا ایرانی سفیر عباس عراقچی نے قبل ازیں اس موقف کا اظہار کیا تھا کہ امریکہ نے ایران کو دھوکہ دیا ایران کو ایٹمی مذاکرات میں انگیج کر کے اسرائیل سے حملہ کرا دیا۔۔ کہتے ہیں کہ جنگ اور محبت میں ہرچیز جائز ہوتی ہے اس لیے امریکہ نے تمام تر عالمی قوانین کو پس پشت ڈال کر ہر حربہ اور اپنی طاقت کے ساتھ مکاریت کا بخوب استعمال کیا پاکستان کے فیلڈ مارشل سید عاصم منیر سے مذاکرات کی اڑ میں امریکہ نے اپنے مذموم مقاصد جاری رکھے ایران پر حملہ کرنے کے فیصلے کو موخر ظاہر کر کے دنیا کو دھوکہ دیا اور ایران پر حملہ کر دیا جو کہ اقوام متحدہ کے چارٹر اور عالمی جوھری پروگرام کے ادارے کے مسلمہ اصولوں کی خلاف ورزی ہے اس سے قبل دنیا بھر میں اسرائیلی جارحیت کی بھرپور مذمت کی جا رہی تھی جبکہ اسرائیل ایران پر حملوں کر کے اپنے مقاصد حاصل نہیں کر سکا بلکہ ایران نے اسرائیلی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا اور پوری طاقت سے اسرائیل کی ٹھکائی کی ایران نے گریٹر اسرائیل کہ منصوبے کو بھی خاک میں ملا دیا جس پر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بار بار ٹرمپ کو براہ راست جنگ میں شامل ہونے پر اکساتے رہے جبکہ امریکی صدر ٹرمپ ایرانی برتری اور اسرائیلی ہزیمت کو تسلیم کر چکے تھے اور انہوں نے برملا اظہار کیا کہ اسرائیل ایرانی جوھری تنصیبات کو تباہ کرنے میں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.