نواب ناظم میو : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اخلاص و محبت کا پیکر

2

شاکر عنقا بالاکوٹ
دنیا قدرت کا ایک ایسا عجوبہ ہے کہ جس کو آج تک نہ کوئی سمجھ سکا ہے اور نہ ہی اس کا عقدہ کسی پر کھل سکا۔ یہ انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا، لہریں کھاتا ہوا ایک بیکراں سمندر ہے۔ جس کی ہر لہر موج و مستی اور رنگ و ترنگ میں دوسری لہر سے مختلف اور دلکش رنگوں کی جلترنگ ہے۔ اسے گوناگوں دنیا کہتے ہیں اس لیئے کہ اس میں ہر فطرت اور طنیت کا انسان پایا جاتا ہے۔ کئی انسان بظاہر ایک فطرت کے دکھائی دیں گئے مگر ان کی فطرتی یکسانیت کے اندر مٹھاس کے ذائقوں کی طرح امتیاز بھی واضح محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یہ دنیا ہے جہاں صنعت تضاد کے ساتھ اس کی ہستی کے رنگ نمایاں ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہ بات اٹل ہے کہ دنیا میں پرفیکٹ ہستیاں کوئی تھیں تو وہ انبیائے کرام علیہ السلام کے بابرکت ہستیاں تھیں اور ان میں بھی اکملیت اور کاملیت ہمارے آقائے نامدار سرور کونین خاتم النبین حضرت محمد مصطفے کی ذات اقدس تھی ۔ بات آج کے دور کی کی جائے تو نبی آخر الزمان ﷺ کے بعد جوں جوں قرب گھٹتا اور فاصلہ بڑھتا گیا دنیا کہتری کی طرف گامزن ہونے لگی ۔ سب سے افضل اور برتر زمانہ دور نبوی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اور اصحاب نبوی رضوان اللّٰہ علیہم اجمعین کا زمانہ تھا پھر اس سے کہتر تابعین اور تابعین سے کہتر تبع تابعین کا دور اس طرح مرکز سے فاصلے بڑھتے گئے اور زمانہ کہتر سے کہتر کی طرف سفر کرتا گیا۔ مگر یہ بھی نہیں کہ اس دور میں اچھے انسانوں کا فقدان پایا جاتا ہے۔ فرق صرف اتنا سا ہے کہ بروں کی نسبت اچھوں کا کال پڑتا دکھائی دیتا ہے۔ اس پر افتاد دور میں نواب ناظم میو جیسی انسانیت پرور ، مجسم اخلاق اور محبت کی پیکر شخصیات موجود ہیں جو نئی نسلوں کے لیئے مینارہ نور ہیں۔ نواب ناظم میو ایک بہت بڑے تخلیق کار ہیں ، جنھوں نے نظم و نثر دونوں میدانوں میں اپنا رنگ جمایا اور خوب جمایا کہ ادب کی دنیا میں ان کے نام کا سکہ چلنے لگا۔ ان کی تمام تصانیف پر ریویو قلمبند کرنے کے باوجود بھی ایک تشنگی کا احساس ہو رہا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی ادبی خدمات کو اس طرح خراج تحسین پیش نہیں کیا جا سکا جس طرح ان کا حق تھا۔ بس ایک تشنگی کا احساس ہمیشہ میرے ساتھ رہے گا کہ شاید میں ان کی تحریروں کے ساتھ انصاف نہیں کر پایا۔ خیر پھر کبھی موقع ملا توان پر اپنی علمی استعداد کے مطابق لکھنے کی کوشش کروں گا۔ آج میرا موضوع ان کی وہ پر سر شخصیت ہے جس نے ہر شخص کو جوان سے کسی بھی ذریعے ربط میں رہا، اپنے حصار میں لے لیا ہے۔ میری آج تک نواب ناظم میو سے بالمشافہ ملاقات نہیں ہوسکی اور میں اس سعادت سے محروم رہا مگر جب سے ہمارا سوشل میڈیا اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ قائم ہوا ہے تو اس دن سے آج تک یہ رابطہ بلا تعطل قائم و دائم ہے۔ گو کہ ہمارے درمیان ارضی مسافت کے لحاظ سے ایک لمبا فاصلہ حائل ہے مگر ذہنی اور فکری لحاظ سے بہت زیادہ قرب پیدا ہو گیا ہے۔ یہ سب نواب ناظم میو کی محبت، اخلاقی قدر، انسانیت پروری، اخلاص اور دوستانہ طرز عمل کا شاخسانہ ہے کہ ایسے لگتا ہے جیسے ایک ہی نہال سے جڑی شاخیں ہوں ۔ جب بھی نواب ناظم میو کی شخصیت کو ٹٹولنے کی کوشش کی تو اس سے اپنائیت اور انسانی محبت اور تڑپتی جنتا کے لیے درد کی کسک کو پایا۔ شاید یہ مصرعہ ان کی شخصیت پر صادق آتا ہے کہ “میرا پیام ہے محبت جہاں تک پہنچے “۔ شاید آپ کی تخلیق کے وقت آپ کا خمیر محبت ، ہمدردی ، خدا ترسی ، ہر ایک کے لیے اپنائیت کا جذ بہ خوش خلقی ، بنی نوع انسان سے محبت اور بنی نوع انسان کا درد جیسی صفات میں گوندھ گوندھ کر تیار کیا گیا تھا۔ آپ کی ذات گرامی محبت کا استعارہ بنی دوسروں کے لیے منزل کا نشاں بن کر راہبری کرتی دکھائی دیتی ہے۔ آپ ایک ہمہ جہت اوصاف کے مالک ہیں۔ آپ کے ادبی شاہ پاروں میں بلکتی سسکتی انسانیت کا نہ صرف درد پایا جاتا ہے بلکہ ان کے درد کے درماں کی کاوش بھی دکھائی دیتی ہے۔ آپ کی شاعری کا مطالعہ کیا جائے یا آپ کی نثر کو احاطہ مطالعہ میں لایا جائے تو آپ کی انسانیت دوستی، انسانیت پروری ، اپنی ملت اور اپنے ملک سے محبت و وفا کے رنگ آپ کی ذات کی ہی طرح نمایاں دکھائی دیتے ہیں۔ جب سے میرا واسطہ نواب ناظم میو سے پڑا ہے میں نے انھیں ایک مہربان دوست ، ایک شفیق بھائی اور ایک محبت کرنے والے مربی کی صورت میں پایا۔ نواب ناظم میو بہت ہی ہمدرد انسان ہیں، جن کے دل میں جذ بہ ایثار وقربانی کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ ان کے اندر استقلال کا پہلو اور ہمہ وقت جہد مسلسل میں لگے رہنے کا حوصلہ ان کے ہم عصروں کی نسبت ان کو امتیازی مقام عطا کرتا ہے۔ سوچتا ہوں اس عمر میں بھی ادب کے میدان میں چاق و چوبند دکھائی دینے والا نواب ناظم میو ایک ایسے سپہ سالار کے روپ میں دکھائی دیتے ہیں جو تعداد کی کثرت کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے چٹانی حو صلے سے لڑتا ہے اور ہر محاذ کو سر کرنے کا ہنر خوب جانتا ہے ۔ یہ وہ عظیم المرتبت شخص ہے جو مسلسل اپنے حصے کے چراغ جلانے اور دنیائے ادب میں نئے پھول کھلا کر اسے مشکبار کرنے میں محو دکھائی دیتا ہے۔ نواب ناظم میو کی شخصیت کے اندر جادوائی اثر پایا جاتا ہے کہ جو بھی ان سے ملتا ہے، ان کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔ ان کی شخصیت کے سحر میں کھو جاتا ہے۔ نواب ناظم میو نے کبھی کسی کو اپنی ذات سے مایوس ہونے نہیں دیا۔ سب کے ساتھ ایسے ربط سے پیوست ہوئے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.