مخصوص نشستوں سے محرومی کا ذمہ دار کون؟

17

الیکشن کمیشن نے تحریک انصاف کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کو
قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کو
الاٹ کرنے کے حوالے سے قرار دیا کہ
جماعت کو یہ نشستیں نہیں مل سکتیں اور اب یہ نشستیں ایوان میں موجود
دیگر سیاسی جماعتوں میں بانٹ دی جائیں گی۔
انتخابی نشان سے محرومی کے سفر نے پاکستان تحریک انصاف کو بالآخر
قومی و صوبائی اسمبلیوں میں خواتین اور غیر مسلم افراد کے لئے مخصوص نشستوں سے محرومی تک پہنچا دیا ۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ فیصلہ نے پی ٹی آئی میں صف ماتم بچھا دیا ہے۔
پی ٹی آئی اس فیصلہ کے خلاف یقینی طور پر سپریم کورٹ پر دستک دے گی۔
قومی امکان ہے کہ سپریم کورٹ باقی ماندہ مخصوص نشستوں کی پی پی پی ،
مسلم لیگ ن سمیت دیگر پارلیمانی جماعتوں کو الاٹمنٹ تاحکم عدالتی فیصلہ تک رکوادے
اوراگر بالفرض سپریم کورٹ بھی الیکشن کمیشن کے فیصلہ کو برقرار رکھتی ہے تو قانون و سیاست سے
وابستگی رکھنے والے ہر پاکستانی شہری کو یہ حق حاصل ہے کہ
وہ یہ سوال اُٹھائے کہ پی ٹی آئی کو اس صورتحال میں پہنچانے کا ذمہ دار کون ہے؟
اپنی گذشتہ معروضات “اندرشیر باہر ڈھیر” اور “سپریم کورٹ فیصلہ کے 20نکات” میں
چند حقائق پر روشنی ڈالی تھی کہ جماعت پی ٹی آئی نوورد افراد کے ہاتھوں یرغمال ہوچکی ہے ،
جسکی بدولت جماعت کو سیاسی عدم فیصلہ سازی کیساتھ ساتھ آئینی و قانونی ہر محاذ پر مشکلات کا سامنا ہے۔ پارٹی کی موجودہ قیادت کی اکثریت سیاسی افراد کی بجائے وکلاء حضرات پر مشتمل ہے۔
مگرافسوسناک پہلو یہ ہے کہ ایسے سینئر اور فاضل وکلاء کے ہوتے ہوئے بھی ہر آئینی و قانونی محاذ پر پی ٹی آئی کو منہ کی کھانی پڑ رہی ہے۔
جماعت کی موجودہ قیادت ٹی وی چینلز کے کیمروں کے سامنے بڑھکیں مارتے دیکھائی دیتی ہے جبکہ کمرہ عدالت میں یہ افراد آئینی و قانونی سوالات کے جوابات دینے سے قاصر نظر آتے ہیں۔
ان فاضل وکلاء کو انتخابی نشان کے متعلق الیکشن ایکٹ، 2017کے باب نمبر 12اوراس میں
درج دفعات 214تا218 او ر مخصوص نشستوں کے متعلق آئین پاکستان کے آرٹیکل 51اور آرٹیکل 224(6) کے ساتھ ساتھ الیکشن ایکٹ کے باب نمبر 7اور اسکی دفعہ 104 اور الیکشن رولز 2017کی دفعات 92اور 94 کا مطالعہ کرنے سے کس نے روکے رکھا تھا؟ ان دفعات میں واضح طور پر درج ہے کہ مخصوس نشستیں صرف اس سیاسی جماعت کو الاٹ کی جاتی ہیں جو سیاسی جماعت اپنے انتخابی نشان کے تحت انتخابات میں حصہ لیکر اسمبلیوں تک پہنچے۔
اس سے زیادہ اور کیا مضخہ خیز بات ہوگی کہ خود سنی اتحاد کونسل کے امیدواروں نے
قومی یا صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں بطور جماعت حصہ نہیں لیا اور
حد تو یہ ہے سنی اتحاد کونسل کے پارٹی چیئرمین صاحبزادہ حامد رضا نے پارٹی نشان کی بجائے بطور آزاد امیدوار الیکشن میں حصہ لیا تھا۔
کیا پی ٹی آئی کے فاضل وکلاء نے اپنے آزاد ممبران اسمبلی کے سنی اتحاد کونسل میں
شمولیت سے پہلے آئین و قانون کی دفعات کے مطابق معاملات کو پرکھ لیا تھا یا پھر شمولیت اختیار کرنا صرف جذباتی فیصلہ تھا؟
کیا پی ٹی آئی قیادت نے شمولیت سے پہلے سنی اتحاد کونسل قائدین سے یہ پوچھا تھا کہ
انکی جماعت نے جنرل سیٹوں پر امیدواران کے کاغذات نامزدگی جمع کرنے کی تاریخ تک خواتین و غیر مسلم مخصوص نشستوں کی فہرست الیکشن کمیشن میں جمع بھی کروائی ہے یا نہیں؟
الیکشن ایکٹ کی دفعہ 104کے مطابق مخصوص نشستوں کی فہرست اسی تاریخ تک جمع کروانا لازم ہے
جس تاریخ تک جنرل نشستوں کے لئے امیدوار اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرواتے ہیں۔
یاد رہےالیکشن شیڈول کے مطابق تمام سیاسی جماعتوں کو کاغذاتِ نامزدگی جمع کروانے کے لیے 22 دسمبر کی ڈیڈلائن دی تھی جسے بعد میں 24 دسمبر تک بڑھا دیا گیا تھا۔
اور اسی دفعہ کے مطابق کاغذات نامزدگی کی آخری تاریخ کے بعد
ان فہرستوں میں کسی صورت ردوبدل نہیں کی جاسکتی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کرہ حکم نامہ میں بہت ہی اہم قانونی ضرب المثل کا ذکر کیا گیا ہے
کہ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب ہے کہ یہ طے شدہ بات ہے کہ
قانون چوکس شخص کی مدد کرتا ہے نہ کہ بےخبر/بے وقوف شخص کی ۔
پی ٹی آئی انتخابی نشان اور مخصوص نشستوں سے محرومی کو ریاستی جبر کا نام دیں یا کچھ اور۔
لیکن اس حقیقت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا ہے کہ پی ٹی آئی جماعت آج تک اپنے ہی بانی رکن اکبر ایس بابرسے جان نہ چھڑا سکی،
ہائیکورٹس او ر سپریم کورٹ جیسے اعلی ترین عدالتی فورم پر اکبر ایس بابر نے
پارٹی میں نوورد افراد کو شکست سے ہمکنار کیا۔
حیرانگی کا پہلو یہ ہے کہ اتنے سینئر اور فاضل وکلاء جو سیاست کے میدان میں فتح یاب ہوکر
خود تو قومی اسمبلی میں پہنچ چکے ہیں مگر پارٹی کو آئینی و قانونی محاذوں پر شکست سے بچا نہ سکے۔
بحیثیت قانون کے طالب علم میں یہ سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ
آئین و الیکشن قوانین کی روشنی میں حقائق پر مبنی ہے اور الیکشن کمیشن کا مخصوص نشستوں کا حکم نامہ سپریم کورٹ میں بھی برقرار ہی رہے گا۔
کیا ہی بہتر ہوتا کہ سنی اتحاد کونسل کی بجائے اسمبلیوں میں ان جماعتوں میں شمولیت اختیار کی جاتی
جن کی اسمبلی میں موجودگی ثابت ہوچکی تھی جیسا کہ
مجلس وحدت المسلمین پاکستان یا مسلم لیگ ضیاء تو یقینی طور پر
مخصوص نشستوں کے حصول میں اس طرح رسوا نہ ہونا پڑتا
۔میں یہ سمجھتا ہوں کہ انتخابی نشان اور مخصوص نشستوں سے
محرومی کی ذمہ دار خود پی ٹی آئی لیڈرشپ ہے۔

تحریر: محمد ریاض ایڈووکیٹ

06/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-3-1-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.