پاکستان کھپے، کھپے ، کھپے

17

تحریر: محمد عمیر خالد

پاکستان کے موجودہ صدر آصف علی زرداری 26 جولائی 1955ء کو صوبہ سندھ کے ضلع نواب شاہ کے گاؤں فتول میں پیدا ہوئے۔
زرداری صاحب کے والد کا نام حاکم علی زرداری تھا جو کہ عوامی نیشنل پارٹی صوبہ سندھ کے صدر اور سندھ کے زرداری قبیلہ کے سردار بھی تھے۔
صدرِ پاکستان آصف علی زرداری نے ابتدائی تعلیم نواب شاہ اور
سینٹ پیٹرک ہائی اسکول کراچی شہر سے حاصل کی جبکہ سال 1972ء میں کیڈٹ کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد سال 1976ء میں لندن سکول آف اکنامکس کراچی سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری بھی حاصل کی۔
آصف علی زرداری نے 1985ء میں پہلی بار غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لیا
لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ 18 دسمبر 1987ء میں آصف علی زرداری کی شادی
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید سے انجام پائی۔ سال 1990ء اور 1993ء میں پاکستان قومی اسمبلی
کے باقاعدہ ممبر بنے اور 1996ء تک ماحولیات اور سرمایہ کاری کے وزیر بھی رہے۔
آصف علی زرداری 1997ء سے 1999ء تک باقاعدہ طور سینیٹر بھی رہے۔ صدرِ مملکت فاروق لغاری نے
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی حکومت ختم کرنے کے بعد 4 نومبر 1991ء کو آصف علی زرداری کو گرفتار کر لیا تھا
اور آصف علی زرداری مختلف کیسز میں تقریباً گیارہ سال جیل میں بند رہے۔
جنرل پرویز مشرف (مرحوم) کے دورِ اقتدار میں جب محترمہ بے نظیر بھٹو 27 دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کے بعد واپسی کے لیے روانہ ہوئیں تو پہلے ان پر گولیاں برسائی گئیں
اور پھر ایک زور دار بم دھماکہ کیا گیا جس کا مقصد پوری سازش کے تحت قوم کی بیٹی
محترمہ بے نظیر بھٹو کو قتل کرنا تھا۔ اور آخر کار گھر کے بھیدی نے لنکا ڈھا ہی دی۔
اس خود کش حملے کے بعد محترمہ بے نظیر بھٹو کو راولپنڈی کے جنرل ہسپتال لے جایا گیا
مگر وہ جان بر نہ ہو سکیں اور 54 سال کی عمر میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔
کتنی حیرانگی کی بات ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے داماد اور قوم کی بیٹی
محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے شوہر نامدار جو کہ دو بار پاکستان کے سب سے بڑے اور
سب سے اہم عہدے پر فائز ہوئے
مگر بے نظیر بھٹو شہید کے قاتلوں کا معمہ آج تک حل نہیں ہو سکا۔ بے نظیر بھٹو کو
شہید ہوئے 17 سال گزر چکے ہیں جبکہ آصف علی زرداری کا پانچ سالہ پہلا دور
اور آج پھر وہ صدرِ مملکت ہیں مگر بے نظیر قتل کیس میں کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی
اور یقین مانیں تا قیامت بے نظیر کے قتل کی سازش اور قاتل بے نقاب نہیں ہو سکیں گے۔
کیونکہ اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پہ بجلیاں۔ صدرِ مملکت اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین
آصف علی زرداری 1994ء میں پہلی دفعہ گرفتار ہوئے جس کے بعد وہ مختلف اوقات میں وقفے وقفے سے گرفتار ہوتے رہے۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد اُن کے شوہر نامدار اور بھٹو خاندان کے داماد کی قسمت چمک گئی۔
آصف علی زرداری نے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین ہونے کی حیثیت سے پاکستان کھپے کا نعرہ لگا کر
سیاست میں باقاعدہ قدم رکھا اور سال 2008ء کے الیکشنوں میں بھرپور اکثریت حاصل کر لی۔
جنہوں نے آصف علی زرداری کا پہلا دور دیکھا ہوا ہے
اُن کی بخوبی اس بات کا علم ہو گا کہ سال 2008ء میں کامیابی کے بعد آصف علی زرداری نے
مسلم لیگ ن اور عوامی نیشنل پارٹی کے ساتھ مل کر قومی اتفاق رائے کی حکومت بنائی تھی۔
پاکستان کے تمام صوبوں کو خود مختار کر دیا گیا تھا۔ چیمبر آرڈیننس ختم کر دیا گیا تھا اور آئین و جمہوریت
کو اُس کی اصل شکل میں بحال کر دیا گیا تھا اور پارلیمنٹ آف پاکستان یعنی قومی اسمبلی،
سینٹ اور ایوانِ صدر کے وقار کو مکمل طور پر بحال کر دیا گیا تھا۔
آصف علی زرداری کے پہلے پانچ سالہ دور کی کہی ان کہی بہت ساری باتیں ہیں جن کو
ایک کالم میں لکھنا بصورت ممکن نہیں
لہٰذا 18 اکتوبر 2008ء کو جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے مستعفی ہونے کے بعد
آصف علی زرداری نے 481 ووٹ لے کر دو تہائی اکثریت حاصل کی اور پہلی بار پاکستان کے صدرِ مملکت منتخب ہو گئے
جبکہ اپنا پانچ سالہ دورِ اقتدار مکمل کرنے کے بعد سال 2013ء میں اپنے اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔
یاد رہے پاکستان کی تاریخ میں آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ اعزاز حاصل رہے گا
کہ پاکستان بننے کے بعد سال 2008ء سے سال 2013ء تک کا دور پاکستان کی تاریخ میں پہلا جمہوری دور مکمل ہوا۔ میں بطور تجزیہ نگار یہ سمجھتا ہوں کہ
مخالفین چاہے آصف علی زرداری سے جتنی بھی مخالفت رکھیں مگر ایک بات کو تسلیم کرنا ہو گا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں آصف علی زرداری نے اپنا آپ منوایا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ گیارہ سال بعد ایک بار پھر آج وہ پاکستان کے صدر منتخب ہوئے ہیں۔ قوم کی بہت ساری امیدیں موجودہ حکومت کے ساتھ وابستہ ہیں
کیونکہ ہمارا یہ المیہ ہے کہ جب سے پاکستان بنا ہے آج دن تک پاکستان کو ترقی نہیں کرنے دی گئی۔ 76 سالہ تاریخ میں ملک کے ساتھ صرف اور صرف تجربات کیے گئے جو کہ
آج بھی جاری و ساری ہیں پھر بھی اُمید پر دنیا قائم ہے کہ شاید ہم ریاستِ پاکستان کی بنیاد لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ کا حق ادا کر سکیں جس کے لیے ہمیں ایک ہونے کی ضرورت ہے۔

08/06/24
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/06/p3-1-1-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.