ملتان اور اسکا تاریخی پس منظر

21

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

ملتان مدینہ الاولیا کے نام سے جانا پہچانا جاتا ہے۔ ویسے تو اس کے کئی حوالے ہیں۔ محمد بن قاسم ملتان کا قلعہ فتح کر کے پنجاب میں داخل ہوا تھا۔ ملتان سرائیکی علاقے کا بھی اہم شہر ہے۔ یہ بھی علمی اور ادبی حلقوں میں بحث چلتی رہتی ہے کہ ملتان پرانا ہے یا لاہور۔ ہند اور سندھ کے تناظر میں ملتان کہاں کھڑا تھا۔ صوفی ازم کے حوالے سے بات کی جائے تو سلسلہ چشتیہ کے برصغیر پاک وہند میں ہر جگہ پر نقوش ملتے ہیں لیکن ملتان حضرت خواجہ بہاوالدین ذکریا ملتانی کے حوالے سے جانا پہچانا جاتا ہے اور وہ سلسلہ سہروردی کے بزرگ ہیں۔ ملتان کے گیلانی اور قریشی خاندان بھی پاکستانی سیاست کے حوالے سے بڑے معروف ہیں۔ مختصراملتان کی ایک تاریخ ہے۔ اس کا ایک اپنا تعارف ہے اور اس کی سر زمین کا ایک اپنا نام ہے اب تو موٹر وے نے اس کو لاہور کے بھی بڑا قریب کردیا ہے ساڑھے تین گھنٹے میں بندہ ملتان سے لاہور پہنچ جاتا ہے۔ ویسے تو اگر صوفیاء کے مزارات پر کوئی شخص بھی جا کر راغب الی اللہ ہو جائے تو ویسے ہی پہنچ جاتا ہے۔
ہندوستان کے اکثر بادشاہ لاہور میں دلچسپی لیتے تھے اور ان کی دلچسپی کی وجہ شاید لاہور کی لوکیشن تھی۔ یہ شہر دریائے راوی کے کنارے پر تھا۔ ہندوستان کا پہلا بادشاہ قطب الدین ایبک پولو کھیلتا ہوا گھوڑے سے گرا اور یہیں مدفون ہوا۔ جہانگیر نے تو اپنی ساری کائنات نورجہاں کے نام کردی تھی اور نور جہاں اور جہانگیر کے مقبرے بھی لاہور میں ہیں۔انارکلی ظالم سماج کی بھینٹ چڑھ گئی اور جا کر سول سیکریٹریٹ کے ایک کونے میں لمبی تان کر سو گئی اور اور تاحال محو استراحت ہے۔ جب جاگے گی تو اس کی اصل کہانی منظر عام پر آئے گی۔ ہماری قوم اور انارکلی میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں ابھی تک سو رہی ہیں۔ خیر بات تو لاہور اور ملتان کی ہو رہی تھی۔ لاہور میں داتا علی ہجویری رح کا بھی مدفن ہے جہاں دن اور رات کی کوئی تمیز نہیں ہے لاہور کو داتا کی نگری بھی کہا جاتا ہے۔ہندوپاک کے نگرنگر اور شہر شہر میں ہمیں بزرگان دین کے مزارات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ محمد بن تغلق کسی وجہ سے سلسلہ چشتیہ کے بزرگ حضرت خواجہ نظام الدین محبوب الہی رحمہ اللہ سے ناراض ہو گیا اور پھر معروف فقرہ ہنوز دلی دور است تخلیق ہوا اور اس نے اپنی ساری توجہ ملتان پر مرتکز کی۔ ویسے تو بزرگان دین حکمرانوں کی سرپرستی کے محتاج نہیں ہوتے بلکہ اپنے تصرف اور توجہ سے بعض اوقات جلال الدین اکبر جیسے بادشاہ کو ننگے پاوں چل کر آنے پر مجبور کردیتے ہیں۔تاہم یہ ایک حقیقت ہے کہ مجبور آدمی کچھ بھی کرسکتا ہے۔ خدا مجبوری سے بچائے۔ محمد بن تغلق کو بھی تو کوئی مجبوری ہوئی تھی کہ اس نے آکر ملتان میں ڈیرے ڈال دیئے اور یہاں اپنا مقبرہ تک تعمیر کروا دیا لیکن اللہ تعالی کا ایک اپنا نظام ہے۔ حضرت بہاوالدین زکریا ملتانی رح کے قدموں میں ایک جگہ محفوظ کی گئی ہے جس پر ایک کتبہ نصب ہے اور اس پر قلمبند ہے کہ اس جگہ شروع میں حضرت زکریا ملتانی کے پوتے شاہ رکن الدین رکن عالم دفن کئے گئے تھے اور جب محمد بن تغلق کا مقبرہ مکمل ہو گیا تو تغلق بادشاہ کوخواب میں حضرت بہاوالدین نے حکم دیا کہ اس مقبرے میں ان کے پوتے کو دفن کیا جائے۔ شادی کے فیصلے تو آسمانوں پر ہوتے ہیں شاید قبروں کے فیصلے بھی آسمانوں پر ہی ہوتے ہیں۔ یہ بھی ایک بیانیہ ہے کہ تمام فیصلے آسمانوں پر ہوتے ہیں اور ان کے عملدرآمد زمین پر ہوتے ہیں۔یوں قلعہ ملتان کی پہچان بہاوالدین زکریا اور شاہ رکن عالم کے مزارات بن گئے۔ تغلق بیچارہ نہ جانے کہاں دفن ہے اور بزرگان دین کے دربار ہر طرف مرجع خاص و عام ہیں
بہاوالدین زکریا 596 ہجری کروڑ لعل عیسن میں پیدا ہوئے۔ ان کے آباو اجداد ہاشمی قریشی تھے۔ مکہ سے خوارزم آئے اور وہاں سے ملتان آکر آباد ہو گئے۔ حضرت شہاب الدین سہروردی کے خلیفہ تھے۔ عالم فاضل،فقیہہ،مبلغ، مجتہد اور ولی کامل تھے۔ ظاہری و باطنی علوم میں یکتائے روز گار تھے۔ ان کی علمی درسگاہ نے اس سرزمین کو جہالت کے اندھیروں میں سے نکالنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ایک روایت کے مطابق شہباز لعل قلندر بھی ان کے خلیفہ تھے۔ ہندوستان میں سہروردیہ سلسلے کی بنیاد انہوں نے رکھی۔ ان کی علمی وروحانی خدمات کی بدولت ملتان کا اہم حوالہ مخدوم خواجہ بہاوالدین زکریا ملتانی ہی ہیں۔ کاش ان کے مشن کو آگے بڑھایا جاتا تو شاید آج ہم تحقیق و جستجو کے میدان میں کہاں سے کہاں تک پہنچ چکے ہوتے۔ ہم روایت پرست لوگ ہیں اورایک ڈگر پر چلنے والے لوگ ہیں۔ اطاعت اور اتباع کو اپنے ہی معنی پہنا لیتے ہیں اور جب چڑیا کھیت خالی کردیتی ہے تو آہ و بقا کرنے کے ہم سب ماسٹر ہیں۔ سلسلہ اور تسلسل کا مادہ ایک ہی ہے۔ کاش صوفیاء کے سلاسل کے لوگوں کو تسلسل اور سلسلے میں مطابقت کی اہمیت وافادیت کا پتہ چل جاتا تو کہانی ایک نیا رخ اختیار کر لیتی اور کہانی کے کردار اپنے اپنے لیول پر سرخرو ہو چکے ہوتے۔ اس لحاظ سے ملتان کے گیلانی اور قریشی خاندانوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ ویسے محکمہ اوقاف بھی اب برابر کا ذمہ دار ہے۔ تاہم نیک اولاد صدقہ جاریہ ہوتی ہے۔
ملتان کے قلعے کی ایک تاریخی اہمیت ہے۔ 713ء میں اس قلعہ کو محمد بن قاسم نے فتح کیا اور علمی وروحانی طور پر اس سارے علاقے کی تقدیر بہاوالدین زکریا ملتانی، شاہ رکن عالم رح، شمس الدین تبریز یا سبزواری اور حضرت موسی پاک شہید جیسے بزرگان دین نے بدل دی تھی۔ اب چونکہ ان مزارات کا انتظام وانصرام محکمہ اوقاف حکومت پنجاب کے پاس ہے۔ اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان سلسلوں کو آگے بڑھائیں۔ مذکورہ قلعے پر علمی و روحانی درسگاہ بنانی چاہیئے جہاں ان بزرگان دین کی تعلیمات پر باقاعدہ کام کیا جائے اور ان تعلیمات کو عصری تقاضوں کے مطابق ڈھال کر تشنگان روحانیت کے لئے پیش کیا جائے۔ ابلاغ کا بھی ایک نظام وضع کیا جائے اور یہاں حاصل ہونے والی آمدن کو ایک باقاعدہ نظام کے تابع لا کر اس کے مصارف متعلقین پر واضح کئے جائیں۔ جو بھکاری وہاں بیٹھے سارا سارا دن بھیک مانگ کر گزارا کرتے ہیں ان کے وظائف لگا کر ان کو معاشرہ کے لئے کار آمد بنایا جائے۔ ان اقدامات سے ہی ان بزرگان دین کے مشن کی تکمیل ہو گی اور آج بھی مجھ جیسے لوگوں کی آنکھوں پر چڑھے جہالت کے ککرے ختم ہونگے۔ سید یوسف رضا گیلانی سابق وزیر اعظم پاکستان نے اپنے دور اقتدار میں ملتان میں بے شمار ترقیاتی کام کروائے ہیں۔ اب وہ دوبارہ چیئرمین سینٹ بن چکے ہیں ملتان اپنے تاریخی پس منظر کے حوالے سے مزید توجہ کا حقدار ہے۔آگے دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.