125

کروڑوں پاکستانیوں کی توجہ کا مرکز چند ایک پاکستانی بنے ہوئے ہیں جن کے ہاتھ میں پاکستانی قوم کی تمام طتابیں اور تمام سسٹم کی موومنٹ ہے
کیونکہ کروڑوں پاکستانی اب اپنا ووٹ کا حق استعمال کرنے کے بعد بھی ان کی طرف دیکھ رہے ہیں
جو ان کی معاشی تجارتی روزگاری تقدیر کے مالک بنے بیٹھے ہیں
آج کئی دنوں کے بعد بھی پوری قوم سر اٹھائے اپنے ٹیلی ویژن سیٹ کی طرف دیکھ رہی ہے کہ
کب کسی وقت کوئی خوشخبری آئے کہ الیکشن کے نتائج بھی مکمل ہو گئے اور اقتدار کی منتقلی بھی ہو گئی
پرائم منسٹر کاتقرر بھی ہو گیا منسٹرز بھی چنے گئے یعنی کہ پورا سسٹم اپنی جگہ پر مکمل ہو گیا
اتنے دن گزرنے کے باوجود بھی کروڑوں عوام ان سیاسی رہنماؤں کی مرہون منت ہیں کہ
کس وقت سب کی۔طرف سے اواز آئے اور یہ لوگ ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کے یہ کہیں کہ ایک پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں
قوم ترس گئی اس اواز کو کہ کب ہمارے کانوں میں جذبہ حب الوطنی سے سرشار اواز پڑے کہ
آؤ کہ چلیں منزلوں کی جانب جہاں ہمارا مستقبل ہماری قوم کا مستقبل ہمارے بچوں کا مستقبل ہمارا انتظار کر رہا ہے
ترقی خوشحالی ہماری منتظر ہیں بے مثالی ہماری منتظر ہے کہ چلو کہ ڈھونڈتے ہیں
ان منزلوں کو جو منزلیں ہمیں صحیح راستے کی جانب لے کر چلتی ہیں بہت عرصے سے کئی دہائیوں سے اسی بات کا انتظار ہو رہا ہے
کہ کوئی تو ائے جو رہبر بن جائے راہوں کا نشان بن جائے منزلوں کا مقام بن جائے۔
سوچنے کی بات تو یہ ہے کہ ایک سائیڈ پر کروڑوں عوام اپنے ووٹ کا حق استعمال کر کے
انگشت بدندہ ہیں کہ کب کوئی خوشخبری ملے کہ ہمارے ووٹ کا حق ہمیں
ہمارے بنیادی مسائل حل کر کے دیا جا رہا ہے
کیونکہ ووٹ کا مطلب ہی یہ ہے کہ اپ ایک امیر کو چن رہے ہیں
وہ امیر جو عوام کی اواز ہے نہ کہ اپنے دل کی وہ اواز سنتا ہے اس کا اپنا کچھ بھی نہیں ہے
تو عوام کا اس ووٹ کا جس ووٹ نے اس پر مقدس اعتماد کیا ہے کیونکہ وہ عوام کا امیر ہے
اور امیر کا جو کام ہوتا ہے رعایا کو خوش رکھنا تو اب منتخب نمائندوں کا کام ہے
کروڑوں عوام کو خوش رکھے
کہ اب دنیا جدت کی طرف بڑھ رہی ہے یعنی انتہائی جدت کی طرف ہم ابھی جدت کے
زینوں پر بھی قدم نہیں رکھ سکے
اگر رکھے بھی ہیں تو ابتدائی قدم ہے جبکہ قومیں جدت سے جدت اور بہت بلندیوں پر پہنچ رہی ہیں
اور کچھ پہنچ بھی گئی ہیں ہمیں کرسی سیٹ کے نظام سے اور وزارتوں کے نظام سے اگے کا سوچنا ہے
ملک کا سوچنا ہے قوم۔کا سوچنا ہے سمجھنا ہے کہ ہم کس جانب چل رہے ہیں
یہ راستے ہمیں کس طرف لے کے جائیں گے کس طرف ان راستوں کا اخراج ھوگا عوام کے۔لئے آسانیاں پیدا ھوں گی یا معاشی مشکلات میں اور اضافہ ھوگا
کیو نکہ ھم قومی خدمت اور عوامی مسائل کا کہتے ھیں
لیکن اقتدار میں آکر بھول جاتے آخر کیوں ۔۔ایک پرانی روش ھے اسکو ھم بدل نہیں رھے
کہ ووٹ لیتے ھیں عوام سے وعدہ کرکے ووٹوں کے بعد ذاتی فوائد کے لئے
ھم آپس میں بھاگ دوڑ شروع کردیتے ھیں کہ فلاں وزارت مجھے مل جائے فلاں عھدہ مجھے مل جائے
پر ایسا کیوں یہ سیغ تو عوام کی پاور سے آئے ھے آپ جس عمدہ پر بھی رھیں
عوام کی زندگی اور رھن سہن میں انقلابی تبدیلی لائیں تاکہ وہ فخر سی کہہ سکے کہ
ھم ھیں پاکستانی پاکستان ھمارا ھے ۔۔ایک نہیں دونہیں پوری قوم کا یہ نعرہ ھے۔
کہ اک پرچم کے سائے تلے ھم ایک ھیں
ھم تسبیح میں پروئے ھوئے دانوں کی طرح ھیں پوری پاکستانی قوم ایک ھے
پورے پارلیمنٹرین پورا پارلیمانی سسٹم ایک ھے اس لئے اب ایوان کے ذریعے
عوام کے ووٹ کی طاقت کے ذریعے بڑے بڑے فیصلے کرنے ھوں وہ فیصلے
جس سے قو۔ اور ملک کی تقدیر بدلے ایشیا میں ایک بڑی معاشی طاقت بن کر ابھریں
یہ تب ھی ھی ھوسکتا ھے جب ھم اقتدار کی بجائے وطن عزیز اور حد درجہ عزیز
اپنی عوام کے لئے دن رات ایک کردیں کہ یہ صدی پاکستان کی پاکستانی قوم کی
اس صدی میں قوم کو اس مقام پر لے کر جانا ھے
کہ پوری دنیایہ کہے کہ جن قوموں۔کے رہبر راہ نما بن جائیں تو وہ ملک اور
قوم دنیا کے لئے مثال بن جاتی ھیں ترقی کی منزلوں کا مقام بن جاتی ھیں

کالم نگار: الیاس چدھڑ

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.