لاپتہ افراد ایک سنگین اور پیچیدہ معاملہ
تحریر : فیصل زمان چشتی
کسی بھی ملک میں بسنے والے افراد کی حفاظت ریاست کی بنیادی ذمہ داریوں میں سے ایک ہے کیونکہ افراد سے ہی قومیں بنتی ہیں اور قوموں کی انفرادی اور جغرافیائی حفاظت اور بقا کے لیے ہی ملک معرض وجود میں آتے ہیں۔ کسی بھی فرد کے جان و مال کا تحفظ ریاست کی اولین ترجیحات میں شامل ہوتا ہے۔ اگر حکومت جان و مال کے تحفظ میں ناکام ہو جائے تو ایک ناکام ریاست کا تصور ذہن میں ابھرتا ہے۔ اسی لیے دنیا کے تمام ممالک اپنے اپنے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرتے چاہے ان کا شہری دنیا کے کسی بھی خطے میں ہو۔ سفارتخانوں کا بنیادی مقصد بھی کسی دوسرے ملک میں بسنے والے اپنے شہریوں کی جان و مال اور حقوق کا تحفظ کرنا ہوتا ہے۔ اسی لیے تمام ممالک اپنے ایک ایک فرد کے لیے اپنے تمام وسائل اور ذرائع بروئے کار لاتے ہیں ۔ ہمارے مذہب میں بھی ایک جان کی قیمت ہر شے سے بڑھ کر ہے اور جس نے کسی ایک انسان کی جان بچائی گویا کہ اس نے پوری انسانیت کی جان بچائی۔
لاپتہ افراد کا معاملہ ایک سنگین معاملہ ہے جو اس وقت دنیا کے بہت سے ممالک کو درپیش ہے ۔ پاکستان کے علاوہ ہندوستان، نیپال ، برطانیہ، امریکہ، یورپ کے بہت سے ممالک کے علاوہ کے اس میں کئی اور ترقی یافتہ ممالک بھی شامل ہیں۔ یہ ایک بین الاقوامی مسئلہ ہے جس کو پاکستان سمیت ہر ملک میں انتہائی سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ یہ اہم ترین مسائل میں سے ایک ہے جو عالمی سطح پر ممالک کے تعلقات بھی متاثر کرتا ہے۔ تمام ممالک اس مسئلے پر قابو پانے کے لئے اپنے طور پر بھرپور کوششیں کرتے ہیں۔ پاکستان میں لاپتہ افراد کا معاملہ انتہائی نازک اور حساس نوعیت اختیار کر چکا ہے جس میں پیچیدگیاں اور الجھنیں دن بدن بڑھتی جارہی ہیں حکومتی ادارے اور سیکیورٹی فورسز اپنے اپنے موقف پر اور قومی سلامتی کے امور پر ڈٹے ہوئے ہیں ۔ لواحقین اور انسانی حقوق کی مختلف تنظیمیں اپنے تحفظات کا اظہار کرتی رہتی ہیں کئی ڈرامائی اور افسانوی باتیں اس سے معاملے سے جوڑ دی گئی ہیں غلط فہمیوں اور دوریوں کی خلیج مزید گہری ہورہی ہے۔ کچھ لوگ اس مسئلے پر جلتی پر تیل چھڑک رہے ہیں اور ہوا بھی دے رہے ہیں۔ اندرونی سازشیوں اور بیرونی دشمنوں کی ریشہ دوانیوں پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے دشمنان وطن چاہتے ہیں کہ ایسے مسائل مزید بڑھیں تاکہ ان کے مذموم مقاصد اور گھناؤنے عزائم پورے ہو سکیں۔ لواحقین اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے مارچ کئے گئے اور دھرنے بھی دیئے گئے حکومتی اداروں کو پریشر میں لانے کی کوشش کی گئی لیکن ابھی تک کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں ہو سکی جو کہ تشویش ناک ہے۔ اس کے لئے متعلقہ اداروں، لواحقین ، انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ ساتھ میڈیا کو بھی انتہائی ذمہ داری اور احتیاط کا مظاہرہ کرنا چاہیے تاکہ صورتحال مزید خراب نہ ہو۔ ایک اور انتہائی توجہ طلب بات یہ ہے کہ جو انسانی حقوق کی تنظیمیں اس معاملے میں سر گرم ہیں وہ اپنی توجہ صرف سیکورٹی فورسز پر مرکوز کرتی ہیں کہ تمام لاپتہ افراد کو سیکورٹی اداروں نے اٹھایا ہے ان کے لیے قانون کچھ بھی نہیں ہے مزید یہ کہ لاپتہ افراد کے حقوق کو مستقل نظر انداز کیا جارہا ہے۔ ایسے پروپیگنڈہ سے پاکستان میں لاپتہ افراد کے مسئلے کے حقائق کو دانستہ چھپائے جانے کی کوشش ہوتی ہے۔ پاکستان میں اس مسئلے کی ابتدا سوویت افغان جنگ کے بعد نوے کی دہاٸی کے وسط میں شروع ہوئی۔ گمشدگی کے اور بھی بہت سے عوامل ہوتے ہیں وہ بھی نہایت اہم ہیں مثلا” رضاکارانہ گمشدگی کو جبری گمشدگی سے نتھی کردیا گیا ہے اس کے علاوہ مختلف دہشت گرد تنظیموں سے وابستہ افراد بھی تنظیموں کے مقاصد کے حصول کی خاطر اچانک منظر عام سے غائب ہو جاتے ہیں۔ مختلف ممالک کی جیلوں میں قید لوگ بھی اس لسٹ میں شامل ہوتے ہیں وہ دہشت گرد جو دہشت گردی کی کارروائیوں میں ہلاک ہوجاتے ہیں، انسانی سمگلنگ بھی ان معاملات کو بڑھاتی ہے ۔ لاوارث فوت ہو جانا اور دفن ہو جانا بھی ایک بڑی وجہ ہے ایدھی اور چھیپا کے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے پچیس سالوں میں ابتک 35،000 سے زائد لاوارث نعشوں کو دفن کیا گیا ہے۔ پوری دنیا کے مختلف ممالک کے لاپتہ افراد کے اعداد و شمار اگر دیکھے جایئں تو پتہ چلتا ہے کہ ادھر مبینہ طور پر لاپتہ افراد کی تعداد نسبتا” کم ہے جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔ مگر کچھ ملکی اور بین الاقوامی قوتوں کی طرف سے پاکستان کو اس معاملے میں جان بوجھ کر ٹارگٹ کیا جاتا ہے اور بغیر ثبوت کے ہر شخص کی گمشدگی کا الزام سیکیورٹی اداروں پر دھر دیا جاتا ہے تاکہ عوام اور ریاست کے درمیان خلیج بڑھے اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ساکھ بھی متاثر ہو۔ یہ ایک بڑی سازش ہے جس کو بڑی احتیاط اور مدبرانہ انداز سے ہینڈل کرنے کی ضرورت ہے اور ہمارے ریاستی ادارے اس ضمن میں اپنی بہترین کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ لاپتہ افراد انتہائی سنگین معاملہ بن چکا ہے کیونکہ اس کا تعلق دہشت گردی اور قومی سلامتی کے امور سے ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام ادارے اور پارلیمنٹ مل کر بیٹھیں انتہائی سنجیدگی سے اور تدبر کا دامن تھامتے ہوئے حالات و واقعات کا باریک بینی سے جائزہ لیں تمام لوگوں کی باہمی رضا مندی سے نئی قانون سازی کی جائے نیا ضابطہ اخلاق قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے جس میں سیکیورٹی فورسز کی ضروریات اور عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کا بھی خیال رکھا جائے سب سے اہم یہ کہ اس سے قومی سلامتی کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔ لاپتہ افراد کے معاملے کی آڑ میں ملک میں عدم استحکام کو ہوا دی جاتی ہے۔ سیکیورٹی اداروں پر انگلیاں اٹھائی جاتی اور ان اداروں کا مورال ڈاؤن کرنے کی دانستہ کوششیں کی جاتی ہیں جو کہ قومی سلامتی کے لیے ہرگز حوصلہ افزا نہیں ہے۔ عسکریت پسندی اور عسکریت پسندوں کے عزائم کی حوصلہ شکنی کی جانی چاہئے اور مل بیٹھ کر سب کے تحفظات دور کرنے چاہئیں۔ اداروں اور عوام کے درمیان رابطے اور اعتماد کو بڑھنا چاہیے تاکہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کی حوصلہ شکنی ہو اور باہمی فضا خوشگوار رہے اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں بھی ایک پیغام جانا چاہیے کہ ہم ایک مہذب اور ذمہ دار قوم ہیں اور اپنے داخلی معاملات آپس میں مل بیٹھ کر خوش اسلوبی سے حل کر سکتے ہیں۔