قاتل ڈور سینکڑوں معصوم زندگیاں نگل گئی
تحریر: ابو عمیر صدیقی
یہ افسوسناک خبر ہم آئے دن سنتے ہیںکہ موٹر سائیکل پر سوار غریب نوجوان گلے پر ڈور کے پھر جانے سے زندگی کی بازی ہار گیا ، ایسا بھی کئی بار ہوا ہے کہ معصوم بچے جو باپ یا بڑے بھائی کے ساتھ موٹر سائیکل پرسوار جا رہے تھے اِس موذی ڈور کا شکار ہو گئے۔ایک ننھی سی کلی جو غریب باپ کے ساتھ جا رہی تھی بن کھلے مرجھا گئی ، ایسی خبریں پڑھکردل میں ایک چوٹ سی لگتی ہے گویا یہ ہمارے ہی کسی عزیز یا بچے کے ساتھ ہوا ہے۔حسبِ معمول حکومت کی جانب سے روایتی قسم کے جملے تعزیت کے طور پر ادا کیے جاتے ہیں اور ساتھ ہی اِس بات کا اعادہ کیاجاتا ہے کہ پتنگ بازی کرنے والوں کے ساتھ سختی سے نمٹا جائے گا۔ لیکن اِس کا کوئی مستقل حل تلاش نہیں کیا جاتا سوائے اِس کے کہ جہاں یہ حادثہ وقوع پزیر ہو اُس علاقے کے تھانے کے اِنچارج کومعطل کر دیا جاتا ہے اور چند ماہ بعد اُسے بحال کر کے کہیںاور تعینات کر دیا جاتا ہے۔ یہ افسوسناک واقعات پچھلی حکومتوں کے دور بشمول عمران حکومت میں بھی ایسے ہی پیش آتے رہے ہیںاور موجودہ حکومت کے دور میں بھی اِن واقعات میں کمی نہیں آئی ہے۔موٹر سائیکل چونکہ غریب کی سواری ہے اور غریب عوام ہی کا مسئلہ ہے لہذ ا اِس مسئلے کے حل کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ اسمبلیوں میں بیٹھے ارکان تو لینڈکروزر اور پجیرو گاڑیوں میں آتے جاتے ہیںتو یہ سرے سے اُن کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی اِس مسئلہ کو پنجاب اسمبلی میںقانون سازی کیلئے پیش کیا گیا ہو۔یہ پنجاب ہی کا مسئلہ ہے کیونکہ سندھ ، بلوچستان اور خیبر پختونخواہ میں پتنگ بازی کا شوق برائے نام ہے جب کہ پنجاب کے تمام بڑے شہروں میں پتنگ بازی کا شوق جنون کی حد تک ہے۔پنجاب کے شہروں میںپتنگ بازی کے مقابلے بھی ہوتے رہے ہیں، شرطیں لگتی تھیں ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑے ڈالے جاتے تھے، پکوان پکتے تھے غرض کہ پتنگ بازی کو با قاعدہ ایک تہوار کے طور پر منایا جاتا تھا ،یہ اُس دور کی بات ہے جب پتنگ بازی میں کیمیکل لگی ڈور کا استعمال شروع نہیں ہوا تھا اُن دنوں نوجوان طبقہ اوربچے کٹی پتنگ اور ڈور لوٹنے کے چکر میں اندھا دھند چھتیں پھلانگتے ہوئے اپنے ہاتھ پیر تڑوا بیٹھتے تھے لیکن زندگی کی بازی ہار جانے کی نوبت کم ہی پیش آتی تھی۔کیمیکل ڈور کا استعمال ١٩٨٠ کے بعد شروع ہوا ، تب سے اب تک یہ قاتل ڈور سینکڑوں نوجوان اور معصوم جانیں نگل چکی ہے اور پتہ نہیں کب تک یہ سلسلہ جاری رہے گا۔کیمیکل ڈور دو دھاری تلوارکا کام کرتی ہے۔ ڈور گلے پہ پھرتے ہی خون کا فوّارہ چھوٹتاہے اور قریب ترین ہسپتال پہنچتے پہنچتے زخمی جوان یا بچے دم توڑ دیتے ہیں ۔ پتنگ بازی چھتوں پر کھلی فضا میں ہوتی ہے بند کمروں میں تو ہوتی نہیں تو پھراِس کو روکنا کیوں ممکن نہیں ہے۔ جس چھت پر پتنگ بازی ہو رہی ہوتی ہے تو اُس گھر کے اِرد گرد رہنے والوں کا یہ اخلاقی فرض بنتا ہے کہ وہ اِس مکروہ کھیل کو رکوانے میں پولیس کا ساتھ دیں اور قریبی تھانہ میں اطلاع دیں لیکن لوگ دشمنی مول لینا نہیں چاہتے ، ہمارا معاشرہ بے حس ہو چکا ہے۔حکومتِ پنجاب کو چاہیے کہ ایک سپیشل فون نمبر صرف اِس کام کیلئے متعارف کروائے جس پر پتنگ بازی کرنے والوں کی اطلاع دی جائے اور اطلاع دینے والے کا نام صیغہ راز میں رہے تو شاید لوگ اِس پر آمادہ ہوں۔ کیمیکل ڈور بنانے والوں کو تلاش کر کے سخت سزائیں دی جائیں اور بھاری جرمانے کیئے جائیں۔ ہماری ایجنسیاں اُن کوتلاش کر سکتی ہیں مگر لگتا ہے کہ آجکل تمام ایجنسیاں 9 مئی کو ہونے والے واقعات میں ملوّث حضرات کے خلاف ثبوت اکٹھے کرنے میں مصروف ہیں۔حالیہ الیکشنز میں فارم 47 کے معجزے سے بنی وزیرِ اعلیٰ پنجاب کی توجہ جب قاتل ڈور کی طرف دلائی گئی تو محترمہ نے اِس کی ذمہ داری خیبرپختو نخواہ پر یہ کہہ کر ڈال دی کہ قاتل ڈور میں جو کیمیکل استعمال ہوتا ہے وہ افغانستان سے اِسمگل ہو کر آتا ہے اور خیبر پختو نخواہ کی حکومت کو یہ ِاسمگلنگ روکنی چاہیے ،اِسمگلنگ رک جائے تو قاتل ڈور بھی بننا بندہو جائے گی۔ محترمہ کو شاید یہ بھی معلوم نہیں کہ ِاِسمگلنگ روکنا وفاق کی ذمہ داری ہے نہ کہ صوبے کی اور پچھلے دو سال سے وفاق میں نون لیگ کی حکومت ہے لیکن اپنا اور اپنے پیاروں کا عیب دکھائی نہیں دیتا ، لہذا ذمہ داری دوسرے صوبے پہ ڈال کر جان چھڑا لی لیکن اپنی نالائقی اور نا اہلی پر حرف نہیں آنے دیا۔ آجکل نون لیگ اور محترمہ کی ساری بھاگ دوڑ صرف اِس بات پر ہے کہ عوام میں اپنی مقبولیت کیسے بڑھائی جائے اور مخالف سیاستدان کی مقبولیت کیسے کم کی جائے۔عوام میں اپنے مقبولیت بڑھانے کیلئے کبھی کبوتر ہاتھ پر بٹھانے کا کرتب دکھایا جاتا ہے او ر کبھی آٹے کے دس کلو تھیلے پر نواز شریف کی تصویر چھاپ دی جاتی ہے گویا موصوف آٹے کا تھیلا اپنی جیب سے ادا کر رہے ہیں۔ وزیرِ اعلیٰ پنجاب مریم نواز عوام کے ساتھ اپنی محبت جتانے کیلئے جب نکلتی ہیں تو پندرہ بیس سیکیورٹی گاڑیوں کے قافلے کے ساتھ فوٹو گرافروں کا ایک لاؤ لشکر بھی ساتھ چلتاہے جو محترمہ کی ہر زاویئے سے وڈیوز بنا کر ریلیزکرتے ہیں لیکن عوام ٹس سے مس نہیں ہوتے اور جہاں بھی جاتی ہیں مخالف سیاستدان کے حق میں نعرے سُن کر جھینپ جاتی ہیں۔اب محترمہ نے خانہ کعبہ میں داخلے کی اپنی ایک وڈیو ریلیز کی ہے کہ شاید عوام اِس جھانسے میں آ جائیں کہ یہ اعزاز محترمہ کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ملا ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ خانہ کعبہ میں داخل ہونے کا اعزاز تو آپۖ کے جانی دشمن ابو جہل اور ابو لہب کوبھی حاصل رہا ہے کیونکہ خانہ کعبہ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے سے اللہ تعالیٰ کی عبادت گاہ کا درجہ حاصل تھا لیکن قرآن نے اُنہیں جہنم کی وعید سنائی ہے۔ خانہ کعبہ میںد اخلے کا اعزاز توفوجی آمروں کے حصّے میں بھی آیا ہے لیکن اُن کا انجام بھی قوم کے سامنے ہے۔ اِن اوچھی حرکتو ں سے تومحترمہ مریم نواز کو اُلٹی بدنامی ملتی ہے لیکن شاید وہ اِس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ بدنام جوہوں گے تو کیا نام نہ ہو گا، عوام میں مقبولیت صر ف عوام کی خدمت کرنے ہی سے ملتی ہے ۔ محترمہ کیلئے یہ بہترین موقع ہے کہ قاتل ڈور بنانے والوں کو قانون کی گر فت میں لاکر سخت سزائیں اور بھاری جرمانے عائد کیئے جائیں ، یہ وقت کا اہم تقاضا ہے جس کیلئے پنجاب اسمبلی میں قانون سازی کی ضرورت ہو گی۔ ‘میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر ‘ فاعتبرو یا اولی الابصار’ (اے عقل والو عبرت حاصل کرو)۔siddiqui.saadat@gmail.com