ایک عام پاکستانی کے مطالبات

117

یہ ملک ہمارا ہے، یہ ادارے ہمارے ہیں؛ یہ زرعی پیداوار ہماری ہے۔ تو پھر ہم کیوں غیروں کے پائی پائی کے محتاج ہیں۔ دکھ ہوتا ہمیں جب ہم غیروں کے سامنے قرضوں کے لیے ہاتھ نہیں جھولیاں پھیلاتے ہیں
اور پھر وہ ہم سے من چاہے فیصلے کرواتے ہیں۔
ہمارے سندھ، بلوچستان، پنجاب اور کے پی کے میں اتنی زرعی پیدوار ہورہی ہے کہ اگر ان جیسے
دس صوبے بھی کھائیں تو ختم نہ ہو۔ اس پیداوار کا مافیاز نے جو حال کیا اس کو لگام ڈالنے کا وقت آچکا ہے۔
ہمارے دیس میں ٹھنڈے پانی کے چشمے، قدرتی حسن اور قدرتی معدنیات کی ہر جگہ بہتات ہے۔
ان کو کب استعمال میں لایا جائے گا؟

کشمیر، مری، ایبٹ آباد، ناران اور کاغان کے پرکیف و پرکشش نظارے دیکھنے کے لیے ایک دنیا ترسی بیٹھی ہے۔
اگر حکومت اس جانب توجہ مبذول کرے تو سیاحت کے شعبے میں خوب ترقی ہوسکتی ہے۔

ہمارے ملک کا چاول دنیا کا بہترین چاول ہے اس کو عالمی منڈیوں میں سو فی صد پزیرائی دینے کی اشد ضرورت ہے۔
بعض علاقوں میں لوگ اس لیے چاول نہیں اگاتے کہ یہ پانی بہت پیتے ہیں تو پیارے بھائیوں
یوکلپسٹس کے درخت تو اندرون زمین پانی کا خاتمہ کررہے ہیں۔ وہ تو زمین و آب وہوا کے ساتھ ساتھ
نبات کےلیے بھی خطرہ بن چکے ہیں۔ اس کی جگہ جگہ پیداوار کیوں کی جا رہی ہے؟

یوں ہی مچھلی کے کاروبار میں بہت وسعت ہے۔ حکومت مچھیروں کے ساتھ تعاون کرے
تو وہ اس کاروبار کو عالمی منڈیوں تک فروخت کرکے ملک کو سالانہ کروڑوں کا زرمبادلہ دے سکتے ہیں۔

اکثر پڑھے لکھے افراد پرائیویٹ اداروں کی بجائے سرکاری اداروں میں نوکر کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ کیوں کہ انھیں سرکاری محکموں میں زیادہ مشقت نہیں اٹھانی پڑتی اور بعد از نوکری انھیں پینشن بھی مل جاتی ہے۔
اگر ملک بھر سے سرکاری نوکریوں کا خاتمہ کرکے تمام اداروں کو پرائیویٹ کردیا جائے تو
شاید سست لاڈلی اور نکمی قوم جاگ جائے۔
دوسری طرف اکثر پرائیویٹ اداروں میں جو جتنا کام کرتا ہے اس کو اتنی ہی تنخواہ ملتی ہے
اور چھٹیوں کے بھی پیسے تنخواہ سے کاٹے جاتے ہیں۔ سرکای نوکریاں اور مراعات ویسے بھی
قومی خزانے پر بوجھ بن چکی ہیں۔

ملک میں چھوٹے چھوٹے اور نئے نئے کاروبار کو فروغ دینے کی ازسرنو حاجت ہے۔
کسی بھی چھوٹے موٹے کاروبار پر ٹیکس لگانے کی بجائے ان کی قومی خزانے سے مالی معاونت کی جائے.
تاکہ چھوٹے کاروبار بڑے بن کر بے روزگاری کا خاتمہ کرسکیں۔

شنید ہے کہ پہلے مرحلے میں دس لاکھ افغانی اپنے ملک کو پیارے ہوچکے ہیں،
چند دنوں تک دوسرے مرحلے میں بیس لاکھ مزید روانہ کیے جائیں گے۔
گزشتہ چالیس سالوں سے یہ ہمارے ملک کے پچاس فی صد کاروبار پر قابض تھے۔
ان کی ملک بدری سے ہماری عوام کو کاروبار کے مزید مواقع میسر ہوں گے اور وہ سکون کی سانس لیں گے۔

بعض با وثوق ذرائع سے خبر ملی ہے کہ حکومت نئے کاروباری ٹیکس کا اعلان کر رہی ہے۔
ان سے گزارش کی جاتی ہے؛ چھوٹے کاروباریوں مثلا ریہاڑی بانوں، دکان داروں وغیرہ پر کسی بھی قسم کا ٹیکس کی صورت میں بوجھ نہ ڈالیں۔ یہ پہلے ہی سسک سسک کر جی رہے ہیں۔
اگر ڈالنا ہی ہے تو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں پہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس ڈالیں؛ تاکہ امتیازی رویوں کا خاتمہ ہو۔

ایک معالج، استاد، آفیسر، اور سرکاری ملازم کا رویہ اپنے ماتحت مریضوں، طلبہ، عملے سے جیسا ہوتا ہے
اس کی بیخ کنی کی جائے۔ آفیسر ، ڈاکٹر، اور استاد دوسروں پہ حکم چلانے کےلیے نہیں ہوتے
بلکہ ان کی خدمت کرنے کےلیے ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں خواتین کی ایک بڑی تعداد جو پڑھ لکھ کر اور کئی کام سیکھ کر بھی بے روزگار ہو کر دربدر دھکے کھا رہی ہوتی ہے۔
حکومت بجٹ میں ان کےلیے معاونت کا کوٹہ رکھے تو وہ اپنے گھروں میں رہ کر اپنے پیشے کے مطابق کاروبار کرسکتی ہیں۔ مریضوں، ناداروں اور بوڑھوں کےلیے سرکاری سطح پر وظیفے مقرر کیے جائیں، تاکہ وہ دربدر کی ٹھوکروں سے بچ سکے۔ آخری بات کہ کسی بھی قوم کی ترقی میں نوجوانوں کا ہنر مند ہونا ازحد ضروری ہے۔ حکومت ہر تحصیل میں ایسے ادارے کھولے جہاں بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ مختلف قسم کے جدید ہنر سیکھائے جائیں۔ یہ اقدامات مشکل نہیں؛ اگر ہمت کی جائے تو کیا نہیں ہوتا؟

تحریر: خالد غورغشتی

25/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p3-4-scaled.webp

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.