ایک مرد قلندر کی یاد میں

145

 

 

 

(مجاہد کشمیر غازی لفٹیننٹ (ر) محمد ایازخان ( ایم ڈی )کی اٹھارویں برسی پر خراج تحسین )

حالات کے قدموں میں قلندر نہیں گرتا ۔۔۔۔ ٓ ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سےدریا ۔۔۔۔۔ لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا
اس بندہ خوددار پہ نبیوں کا ہے سایہ ۔۔۔۔ جو بھوک میں بھی لقمہ تر پر نہیں گرتا

آج سے پینسٹھ سال پہلے کی بات ہےایک مضبوط جسامت اور گہری سانولی رنگت والا
کوٹ پینٹ اور ٹائی میں ملبوس بہت ہی اسمارٹ شخص اپنی ایک ایسی سائیکل پر سوار
جس کے کیریر پر ایک بکس بندھا تھا اور جس سائیکل کے درمیان کپڑے کا ایک تھیلا بندھا تھا
اس بکس اور اس تھیلے میں گرم تندور کی روٹیاں بھری ہوتی تھیں
جو صبح تہجد کے وقت ریاست بہاولپور کے لنگر خانے سے پکوا کر لاتا تھا
اور پھر ڈیرہ نواب صاحب کے اردگرد تقریباً ایک سو آنکھوں ،پیروں ،ہاتھوں اور
ذہنی معذوروں کو ان کے گھروں پر پہنچاتا تھا

اور یہ کام وہ صبح آتھ بجے سے قبل اپنی اصل ڈیوٹی شروع کرنے سے پہلے انجام دیتا تھا

تعجب کی بات یہ ہے کہ یہ کام وہ اپنی خواہش اور
بلاکسی معاوضے کے روزآنہ انجام دیتا تھا ۔یہ کوئی معمولی آدمی نہ تھا
یہ پاکستان آرمی کا رئٹائرڈ آفسر تھا جس نے پاکستان کے سب پہلے
فرسٹ او ٹی ایس منگلا سے کمیشن حاصل کیا تھا
(یاد رہے کہ ہمارے موجودہ آرمی چیف صاحب بھی
سترہ آو ٹی ایس سے تعلق رکھتے ہیں ) فرسٹ آو ٹی ایس کے بہترین کیڈٹ قرار پائے
اور فرسٹ پوزیشن کا اعزاز اپنے نام کیا
وہ پاکستان کے پہلے کمیشنڈ آفسرز میں شامل تھے
پاکستان آرمی سےرئٹائرمنٹ کے بعد وہ اس وقت
ریاست بہاولپور کی فوج کے جنرل جے ایچ مارڈن کا پرسنل سکریٹری ہونا بڑا اعزاز تھا
یہ وہ بہادر شخص تھا جس نے آزادی کشمیرکے لیے لڑتے ہوئے شجاعت کی اعلیٰ مثال قائم کی
اور اس کے زیر کمانڈ لڑنے والے شہید نائیک سیف علی جنجوعہ کو کشمیر کا
سب سے بڑا اعزاز ہلال کشمیر دیا گیا
جو بعد میں ان ہی کی کوشش سے نشان حیدر قرارپایا
پھر ۱۹۶۵ء کی جنگ میں دوبارہ کشمیر کی جنگ کا حصہ بنا
اور پھر ۱۹۷۱ء کی جنگ میں مشرقی پاکستان میں جیسور کے محاذ پر بہادری سے لڑتے ہوئے
زخمی ہو کر دو سال بھارتی جنگی قیدی رہا
ملک کے خلاف تما م جنگوں میں حصہ لیکر بےشمار جنگی اعزازت سے نوازا گیا ۔
جی ہاں لوگ انہیں مجاہد کشمیر لفٹیننٹ رئٹائرڈ محمدایاز خان کے نام سے آج بھی جانتے ہیں
جنہیں بابا سماج کا خطاب بھی دیا گیا
تحریک قیام پاکستان کی جدوجہد میں اپنے بیوی بچوں کی شہادت اور اپنے گھر بارکی
تباہی کے صدمے اٹھانے کے باوجود ان کا پاکستان اور یہاں کے غریب لوگوں کی خدمت کا جذبہ
کبھی سرد نہ پڑسکا تھا
علاقے بھر کے معذور اور مساکین صبح اپنے دروازوں پر ان کے منتظر رہتے تھے ۔
ان کی پوری زندگی یا تو پاکستان کی حفاظت کے لیے جنگ کے میدانوں میں گزری
یا پھر دکھی انسانیت کی خدمت میں بسر ہوئی ۔میرے لیے یہ اعزاز بہت ہے کہ
وہ محب وطن انسان میرے والد بزرگوار تھے ۔
جن کی جنگی اور سماجی خدمات کی ایک طویل داستان ہے جو
ہندوپاکستان کی تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں
ان کے جنگی کارنامے اور سماجی خدمات ہماری تاریخ کا وہ زریں باب ہیں
جس پر جتنا بھی فخر کیا جائے کم ہو گا
انہوں نے اپنی پوری زندگی دکھی انسانیت کے لیے وقف کردی تھی

ان کی زندگی کے ہر ہر پہلو پر لکھنے کے لیے مضمون یا کالم نہیں بلکہ کئی کتابیں درکار ہیں وہ ایک عام آدمی کی زندگی گزارنےوالے درحقیت اتنے ہی خاص تھے ۔
آج ان کی اٹھارویں برسی کے موقع پر بطور باپ ان کو خراج تحسین پیش کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں اور کہتے ہیں والد کے دوست بھی والد کی جگہ ہوتے ہیں
اس لیےان چند قریبی دوستوں کے ان کے بارے میں تاثرات بھی لکھوں گا یوں تو ان کے بےشمار دوست اور چاہنے والے تھے مگر کچھ کا تذکرہ ان کی زبانی سنا اور کچھ سے مجھے ذاتی طور پر ملنے کی سعادت حاصل ہوئی
جن میں حکیم محمد سعید دہلوی شہید ہمدرد ٹرسٹ ،سردار عبدالقیوم خان مرحوم صدر آزاد کشمیر جو جہاد کشمیر میں ساتھ رہے ،
سید نزہت حسین جعفری مرحوم چیرمین واپڈا جو اباجی کے پہلی جماعت سے
کلاس فیلو اور لنگوٹیے دوست تھے ۔
حکیم محمدسعید دہلوی صاحب ہر سال یا تو خود تشریف لاتے یا پھر اباجی کو کراچی بلواتے
ایک مرتبہ جناح ہال احمدپور شرقیہ میں اپنے خطاب میں انہوں نے فرمایا
ایاز خان میرے لیے خدمت انسانیت کا رول ماڈل ہیں ” سرادر عبدالقیوم خان مرحوم
تین مرتبہ اباجی سے ملنے ہمارے گھر تشریف لائے
اور قیام کے دوران مجھے ان کی خدمت کا موقع ملا
وہ کشمیر کی آزادی تک فرش پر ہی سوتے تھے
وہ فرمایا کرتے تھے”ایازخان کی آزادی کشمیر کے لیے خدمات کی کوئی مثال نہیں ملتی
سید نزہت حسین جعفری مرحوم چیرمین واپڈا بھی رہے ان سے خانیوال میں ملاقات ہوئی
وہ اباجی کے کلاس فیلو اور قریبی دوست تھے انہوں نے مجھے بتایا کہ “ایازخان
مجھ سے بھی بہت زیادہ قابل اور ذہین اور دوستوں سے بہت مخلص اور محبت کرنے والا تھا ۔
اباجی کے ایک ساتھی جنرل برکت صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے کہا
جاوید تمہارا باپ بہترین آرمی آفسر اور کمانڈر تھا ۔ آزاد کشمیر رجمنٹ کے بریگیڈیر (ر)
دلاور صاحب انہیں اپنا بہتریں ساتھی بتاتے ہیں ۔
سید یاسر حسین جعفر ی مرحوم بانی پاکستان سوشل ایسوسی ایشن فرماتے تھے
ایاز خان میرے سگے بھائٰی کی طرح ہے “
نواب صلاح الدین عباسی امیرآف بہاولپور اب بھی انہیں اپنا چچا اور استاد کہہ کر مخاطب کرتے ہیں ۔
شہزادہ سعید الرشید عباسی مرحوم انہیں اپنا استاد اور اتالیق کہتے تھے ۔

ان کے دوستوں میں لفٹیننٹ راوُ سلیمان آف کالہنور
نواب سجاد علی خان نواب آف کرنال ، کرنل شیر محمد سلوہ
سردار ابراہیم خان آف کشمیر
جنرل احمدعلی ،جنرل سوار خان ،جنرل عتیق الرحمان ،نواب اورنگزیب خان نواب آف سوات اور محمودعلی چیرمین نیشنل کونسل مرحوم کے نام بھی شامل تھے ۔
وہ بہترین فوجی آفیسر ، بہترین منتظم ،بہترین صحافی ،
بہترین سماجی لیڈر ،بہترین مذہبی سکالر ،بہترین مقرر ،بہترین مصنف
اور بہترین سوشل ورکر تھے ۔
مسز جنرل مارڈن ،عبدالستارایدھی مرحوم اور
بیگم وقارالنسانون صاحبہ کے ساتھ کام کرنے کا شرف بھی حاصل رہا
اوران کے تعاون سے احمدپورشرقیہ میں زنانہ ہسپتال
مویشی ہسپتال اور ٹی بی ہسپتال قائم کیا ۔ریڈکراس (ہلال احمر ) اور
پاکستان ٹی بی ایسویشن کے عہدیدار ر بھی رہے
نواب بہادر جنگ اور قائداعظم کی تنظیم پاکستان سوشل ایسوسی ایشن کے تاحیات صدر رہے ۔
پاکستان میں پہلے بیت المال کا قیام ان ہی کہنے پر
جنرل ضیاالحق صاحب نے بہاولپور سے ہی کیا ۔
پاکستان میں پہلی سوشل ویلفیر اورگنائزیشن قائم کی
اور پاکستان میں محکمہ سوشل ویلفیر کے قیام میں اہم کردار ادا کیا ۔
اپنے ایک ساتھی نائیک سیف علی جنجوعہ شہید کو نشان حیدر کا اعزاز دلانے کے لیے
تیس سال تک طویل جدوجہد کی اور کامیاب ہوئے ۔
سولجر بورڈ وزارت دفاع کے ویلفیر آفیسر رہے اور سابق فوجیوں کے لیے خدمات انجام دیں
بےشمار نوجوانوں کی رہنمائی کرکے پاکستان فوج میں کمیشن دلایا ۔
پورے پاکستان میں ان کے پرستار آج بھی انہیں یاد کرتے ہیں ۔
ضلعی امن کمیٹی اور عیدمیلاد کمیٹی کے مرکزی عہدیدار ہوتے تھے ۔
جب نواب امیرآف بہاولپور گورنر پنجاب بنے تو ان کے ساتھ بطور سوشل سیکریٹری کام کرتے رہے ۔
صحافت سے گہری دلچسپی تھی روزنامہ زمیندار لاہور ،اورتجدید عہد سے وابستہ رہے
احمدپورشرقیہ سے پہلا روزنامہ “روہی ” شائع کرتے رہے۔
مشہور صحافی مرزا منصور یاور مرحوم انہیں درویش صحافی کہتے تھے
اور ان کی زندگی پر ایک کتاب بھی لکھی تھی ۔

انہیں اردو ،عربی ،فارسی اور انگریزی زبان کی تقریر اور تحریر پر مکمل عبور حاصل تھا ۔
ان کی ملک اورقوم کے خدمات کی ایک طویل داستان ہے جسے کسی ایک مضمون میں بیان کرنا ممکن نہیں ہوسکتا ۔
ان کے اور ان سے منسوب واقعات کے بارے میں بہت سے مضامین اور کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔
مجھ سے بھی زیادہ معلومات ان کے قریبی ساتھیوں مشہور صحافی اور کالم نگار شیخ عزیزالرحمان صدر میڈیا کلب احمدپور شرقیہ
اور رحیم طلب سابقہ ڈائریکٹر انفارمیشن پنجاب کے پاس ہیں
جو وہ اپنی تحریروں ورتقاریر میں بیان کرتے رہتے ہیں ۔
ان کے بھتیجے شاہ نواز خان کواڈینیٹر پی ایس آو پنجاب سید عمار حسین جعفری
بانی پاکستان ڈیجیٹل اور صدر پی ایس اے پاکستان اور
ڈاکٹر عبدالرحمان ناصر صدر پی ایس اے ساوتھ پنجاب جو ان کے فرزند روحانی اور خصوصی شاگر د ہیں
ان کے بعد آج بھی ان کا یہ فلاحی مشن جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

تحریر ؛۔ جاویدایازخان

15/03/24

https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/03/p2-9-2-scaled.jpg

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.