مہنگائی – قصور وار کون؟ حل کہاں؟
پاکستان میں اگر کوئی ایسا عذاب ہے جس نے ہر خاص و عام کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے، تو وہ مہنگائی ہے۔ روٹی، چینی، دال، سبزی، گوشت، بجلی، گیس، تیل – کوئی چیز ایسی نہیں جس کے نرخ روزانہ کی بنیاد پر نہ بدلتے ہوں۔ اس کالم میں ہم حکومت کی پالیسیوں، عوام کے ردعمل، IMF کے کردار، ذخیرہ اندوز مافیا کی چالوں، اور مہنگائی کے خاتمے کے حقیقی امکانات کا جائزہ لیں گے۔
پاکستان کی ہر حکومت کا یہ وطیرہ رہا ہے کہ وہ مہنگائی کی اصل وجوہات پر بات کرنے کی بجائے “سستے بازار” اور “سبسڈی” جیسے عارضی اقدامات پر زور دیتی ہے۔ موجودہ حکومت ہو یا سابقہ، سب نے مالی خسارہ پورا کرنے، قرضے اتارنے، یا بجٹ خسارے کو کنٹرول کرنے کیلئے ٹیکس کا بوجھ عوام پر ڈالنے کو ہی آسان حل سمجھا۔ بجلی کی قیمتوں میں ماہانہ اور سہ ماہی ایڈجسٹمنٹ، تیل کی قیمتوں میں یک دم اضافہ، اور روپے کی قدر میں کمی حکومتی مجبوری بھی ہے مگر اس کے ساتھ پالیسی پلاننگ کی کمزوری بھی۔ اگر حکومت زراعت، مقامی پیداوار، ایکسپورٹ بیسڈ انڈسٹری اور ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے پر فوکس کرے، تو مہنگائی کی جڑیں خود بخود کمزور پڑ جائیں۔ لیکن ہر حکومت کا فوکس اگلے الیکشن تک محدود رہتا ہے۔
عوام کا ردعمل کئی پرتوں میں تقسیم ہے۔ ایک طرف وہ طبقہ ہے جو خاموشی سے مہنگائی برداشت کر رہا ہے۔ یہ سفید پوش طبقہ ہے جس کی آمدن محدود اور اخراجات لامحدود ہیں۔ دوسری طرف، احتجاج کرنے والا طبقہ ہے جو مزدور یونینز، کسان تنظیموں یا سیاسی جماعتوں کے پلیٹ فارم سے آواز اٹھاتا ہے مگر اس کی آواز اکثر طاقتور حلقوں تک نہیں پہنچ پاتی۔ تیسری قسم کا ردعمل نفسیاتی شکست ہے، جہاں لوگ مہنگائی کو اپنی قسمت سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں اور روزمرہ کی تگ و دو میں اس کا حل تلاش کرنے کی بجائے صرف گزارا کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ اس معاشرتی بے بسی نے بھی ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کو بے لگام کر دیا ہے۔
آئی ایم ایف کا بنیادی کام قرض دینا ہے اور قرض دینے کا لازمی تقاضا ہے کہ مقروض ملک اپنی آمدن بڑھائے اور اخراجات کم کرے تاکہ قرض کی واپسی یقینی ہو۔ پاکستان میں آمدن بڑھانے کی پالیسی اکثر ٹیکس بڑھانے، سبسڈی ختم کرنے اور روپے کی قدر گرانے پر مبنی ہوتی ہے۔ یہ وہ اقدامات ہیں جو فوری طور پر مہنگائی کو دوگنا کر دیتے ہیں۔ IMF خود مہنگائی کا سبب نہیں بنتا، مگر اس کے نسخے کمزور معیشت کیلئے انتہائی کڑوے ہوتے ہیں۔ اور جب سیاسی حکومتیں ان نسخوں کو عوام دوست اقدامات کے بغیر لاگو کرتی ہیں، تو نتائج مہنگائی، غربت اور بے روزگاری کی صورت میں نکلتے ہیں۔
پاکستان میں چینی مافیا، گندم مافیا، آٹا مافیا، دال مافیا، پٹرولیم ڈیلر مافیا، کنسٹرکشن مافیا – ہر شعبے میں طاقتور گروہ موجود ہیں جو نرخوں کو اپنی مرضی سے کنٹرول کرتے ہیں۔ حکومت کی رٹ کمزور ہو تو یہی ذخیرہ اندوز چند ہفتے سامان غائب کر کے قیمتیں دگنی کر دیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے اکثر مافیاز کا تعلق حکمران جماعتوں، اتحادیوں یا بااثر تاجروں سے ہوتا ہے۔ ذخیرہ اندوزی اور اسمگلنگ کا خاتمہ مہنگائی کے خلاف سب سے پہلی جنگ ہے۔ جب تک حکومتی ادارے ذخیرہ اندوزوں کو کڑی سزائیں نہیں دیں گے، یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔
پرائس کنٹرول کمیٹیاں اکثر کاغذی کارروائی تک محدود ہیں۔ اگر کسی سبزی منڈی، کریانہ اسٹور یا بڑے سپر اسٹور پر بھی چیک کیا جائے تو سرکاری نرخ اور فروخت نرخ میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ حکومتی مشینری میں کرپشن اور ملی بھگت کے سبب من مانی قیمتوں کو روکنے والا کوئی نہیں۔ شہری انتظامیہ کی ہفتہ وار یا عید سے قبل کی کارروائیاں محض میڈیا فوٹو سیشن کیلئے رہ گئی ہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر نگرانی اور سزا کا موثر نظام ہی من مانی قیمتوں کو کنٹرول کر سکتا ہے۔
یہ سوال سب سے اہم ہے۔ کیا مہنگائی ختم ہو سکتی ہے؟ ماہرین معاشیات کہتے ہیں کہ مہنگائی کو ختم نہیں کیا جا سکتا، مگر اسے کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے درج ذیل اقدامات ضروری ہیں:
زراعت پر انویسٹمنٹ: کسان کو بیج، کھاد، پانی اور مارکیٹ تک آسان رسائی دی جائے۔ کسان خوشحال ہو گا تو مہنگائی کم ہو گی۔
مقامی پیداوار بڑھانا: درآمدات کم اور برآمدات زیادہ کرنے کی پالیسی ہی روپے کی قدر کو مستحکم رکھے گی۔
ذخیرہ اندوزی اور مافیاز کا کڑا احتساب: ان پر فوری مقدمات اور سزائیں مہنگائی کو فوری بریک لگا سکتی ہیں۔
پرائس کنٹرول میکانزم کو مضبوط کرنا: ڈیجیٹل سسٹم، AI-based مانیٹرنگ اور عوامی رپورٹنگ ایپس بنائی جائیں۔
ٹیکس نیٹ کو وسعت دینا: جب براہ راست ٹیکس بیس بڑھے گا تو حکومت کو بالواسطہ ٹیکسز (جو مہنگائی بڑھاتے ہیں) لگانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔
آئی ایم ایف پر مکمل انحصار ختم کرنا اپنی پالیسیوں میں استحکام، ادارہ جاتی اصلاحات، اور غیر ضروری شاہ خرچیاں ختم کر کے قرضوں پر انحصار کم کیا جائے۔
آخر میں بات پھر وہیں آتی ہے کہ مہنگائی کا خاتمہ عوام، حکومت اور اشرافیہ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت پالیسی بنائے مگر ادارے ناکام ہوں تو مہنگائی نہیں رک سکتی۔ اگر ذخیرہ اندوزی پر قانون نہ ہو تو مہنگائی کا جن بے قابو رہتا ہے۔ اگر عوام قیمت بڑھنے پر چپ رہیں تو منافع خور بے لگام ہو جاتے ہیں۔ اور اگر IMF کی ہر شرط کو آنکھ بند کر کے مان لیا جائے تو معیشت اور عوام دونوں دم توڑ دیتے ہیں۔
پاکستان کو ایک ایسے معاشی وژن کی ضرورت ہے جو سیاست سے بالاتر ہو، کرپشن سے پاک ہو اور صرف عوام کی فلاح کو مرکز بنائے۔ تبھی ممکن ہے کہ روٹی، دال، دودھ، سبزی، بجلی اور گیس عوام کی پہنچ میں رہیں اور یہ ملک معاشی استحکام کی طرف بڑھے۔