دوسُو کو دیکھ کر مجھے حیرت کا جھٹکا لگا،
اُس کے ہونٹ سلے ہوئے تھے،
کسی بات کا جواب بھی وہ اوں آں کر کے،
یا لکھ کر دے رہا تھا۔
یہ تمہارے ساتھ کس نے کیا؟
میں نے سوال لکھا۔
ہونٹ خود سیے ہیں،
دوسُو نے جواب لکھا۔
ایسا کیوں کیا؟
دوبارہ سوال لکھا۔
مجھ سے کہا گیا کہ سچ بولنا چھوڑ دو،
دوسُو کا جواب ملا۔
تو ہونٹ کیوں سیے؟
میں نے پھر پوچھا۔
سچ بولنا چھوڑ نہیں سکتا،
حل یہی نظر آیا کہ ہونٹ ہی سی دوں،
دوسُو نے سفید کاغذ پر سیاہ روشنائی سے جواب لکھا۔