ایف بی آر 37AA کا  قانون اور لاھور ایوان  صنعت و تجارت کا احتجاج

محمد ندیم بھٹی،" 

3
وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) پاکستان کا وہ ادارہ ھے جس کی بنیادی ذمہ داری ٹیکس جمع کرنا، محصولات کی نگرانی کرنا اور معیشت کو دستاویزی بنانا ھے۔ ایف بی آر کے قوانین میں وقتاً فوقتاً تبدیلیاں اور ترامیم ہوتی رہتی ھیں تاکہ نظام کو مزید بہتر اور شفاف بنایا جا سکے۔ انہی قوانین میں ایک قانون دفعہ 37AA ھے، جو کہ ایک اہم اور نازک پہلو رکھتا ھے۔ اس دفعہ کے ذریعے ایف بی آر کو غیر معمولی اختیارات حاصل ہو جاتے ھیں جن کے اثرات براہ راست کاروباری طبقے، تاجروں، صنعت کاروں اور ٹیکس دہندگان پر پڑتے ھیں۔
دفعہ 37AA بنیادی طور پر اس امر کی اجازت دیتی ھے کہ ایف بی آر کسی بھی مشتبہ معاملے میں کسی فرد یا ادارے کے بینک اکاؤنٹ تک براہ راست رسائی حاصل کر سکتا ھے اور اس کی مالی لین دین کا جائزہ لے سکتا ھے۔ اگرچہ اس اقدام کا مقصد ٹیکس چوری کی روک تھام اور کالے دھن کی نشاندہی کرنا ھے، لیکن اس کی عملداری میں شفافیت اور اختیارات کے غیر متوازن استعمال کے حوالے سے کئی سوالات جنم لیتے ھیں۔
یہ قانون ایف بی آر کو یہ حق دیتا ھے کہ وہ کسی بھی ٹیکس گزار کے خلاف محض شک کی بنیاد پر کارروائی کا آغاز کرے اور بینکنگ معلومات حاصل کرنے کے لیے متعلقہ بینک کو نوٹس جاری کرے۔ یہاں یہ بات قابل غور ھے کہ ایسے اختیارات مہذب دنیا میں عدالتی منظوری کے بغیر نہیں دیے جاتے، لیکن پاکستان میں اس قانون کے تحت کسی عدالت یا مجسٹریٹ کی اجازت کی ضرورت نہیں۔ اس عمل سے کاروباری برادری میں عدم تحفظ کا احساس بڑھا ھے۔
معاشی ترقی کا راز اعتماد اور استحکام میں چھپا ہوتا ھے۔ جب کوئی تاجر یا سرمایہ کار یہ محسوس کرے کہ اس کے مالی معاملات کسی ادارے کی من مانی کا شکار ہو سکتے ھیں تو وہ نہ صرف اپنا سرمایہ ملک سے نکالنے پر مجبور ہوتا ھے بلکہ وہ نئی سرمایہ کاری سے بھی گریز کرتا ھے۔ یہی وہ وجہ ھے کہ ایف بی آر کا 37AA جیسا قانون کاروباری طبقے میں بداعتمادی کو جنم دے رھا ھے اور پاکستان کی معیشت کو غیر رسمی بنا رھا ھے۔
اس کے علاوہ ایف بی آر کے اہلکاروں کو ان اختیارات کے تحت کوئی واضح جوابدہی کا نظام درکار نہیں۔ کسی افسر کی نیت یا پیشہ ورانہ تربیت پر سوال نہ بھی اٹھایا جائے تو بھی نظام کو ایسا ہونا چاہیے جو غیر جانبداری اور قانون کی مکمل بالادستی کو یقینی بنائے۔ جب قانون میں شفافیت اور توازن کا فقدان ھو تو وہ قانون طاقتوروں کے لیے ہتھیار اور کمزوروں کے لیے عذاب بن جاتا ھے۔
اس دفعہ کے نفاذ کے بعد ایسے کئی کیسز منظر عام پر آئے ھیں جن میں بینک اکاؤنٹس کی معلومات لیک ہوئیں، کاروباری راز افشا ہوئے اور تاجروں کو غیر ضروری تنگ کیا گیا۔ ان مثالوں سے یہ سوال پیدا ہوتا ھے کہ کیا اس دفعہ کا استعمال احتیاط سے کیا جا رہا ھے یا یہ محض ایک ہتھیار بن گیا ھے جس کے ذریعے ٹیکس گزاروں پر دباؤ ڈالا جاتا ھے۔
ٹیکس نظام کی بہتری کے لیے قانون کا ھونا بے شک ضروری ھے، لیکن قانون سازی میں توازن، عوامی مفاد اور انصاف کا اصول مقدم ہوتا ھے۔ 37AA ایک ایسا قانون ھے جو ٹیکس وصولی کے لیے تو مددگار ہو سکتا ھے، مگر اگر اس کا اطلاق شفافیت، احتساب اور قانونی تقاضوں کے بغیر کیا جائے تو اس کے نتائج منفی ہو سکتے ھیں۔
پاکستان میں پہلے ھی ٹیکس نیٹ انتہائی محدود ھے۔ بمشکل دو سے تین فیصد افراد ٹیکس دیتے ھیں، جبکہ باقی آبادی اس نظام سے باہر ھے۔ اس پس منظر میں ایسے قوانین جن سے خوف اور عدم تحفظ پیدا ہو، وہ ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے کے بجائے مزید سکڑنے کا باعث بنتے ھیں۔ تاجر، دکاندار اور سروس فراہم کرنے والے افراد ایف بی آر سے بچنے کے لیے نقد لین دین کو ترجیح دینے لگتے ھیں، جس سے معیشت غیر رسمی ہوتی جاتی ھے۔
حقیقت یہ ھے کہ ٹیکس چوری ایک سنگین جرم ھے اور اس کے خلاف سخت اقدامات کیے جانے چاہییں، لیکن ان اقدامات کا طریقہ ایسا ہونا چاہیے کہ جس میں عوام کا اعتماد بھی بحال ھو، اور کاروباری ماحول بھی خراب نہ ھو۔ بدقسمتی سے 37AA جیسے قوانین عوام اور ریاست کے درمیان اعتماد کی خلیج کو کم کرنے کے بجائے اسے مزید گہرا کر دیتے ھیں۔
دنیا کے کئی ممالک میں ٹیکس نظام کو ڈیجیٹل کیا جا چکا ھے اور تمام مالیاتی معاملات شفاف انداز میں آن لائن مانیٹر کیے جاتے ھیں۔ لیکن وہاں ٹیکس دہندگان کو مکمل قانونی تحفظ اور معلومات فراہم کی جاتی ھیں۔ ان کو ہر قدم پر اعتماد میں لیا جاتا ھے، اور کسی بھی کارروائی سے پہلے انہیں وضاحت کا موقع دیا جاتا ھے۔ پاکستان میں اگر ایف بی آر بھی ایسے عالمی معیار کے اصولوں کو اپنائے تو نہ صرف ٹیکس نیٹ میں اضافہ ہوگا بلکہ قومی خزانے کی آمدن بھی بڑھے گی۔
اس قانون کے تحت اگر کوئی کاروباری شخص ایف بی آر کی نظر میں مشکوک ھو جائے تو اس کا پورا مالی نظام مفلوج ہو سکتا ھے۔ بینک اکاؤنٹس منجمد کیے جا سکتے ھیں، اثاثوں کی ضبطگی کا خطرہ لاحق ہو سکتا ھے، اور کاروباری ساکھ متاثر ہو سکتی ھے۔ ایسے میں اگر وہ شخص بے گناہ ثابت ھو بھی جائے تو اس کی مالی و اخلاقی تلافی ممکن نہیں ھوتی۔
ایسے قوانین کے اطلاق میں عدالتی نگرانی کو شامل کیا جانا چاہیے تاکہ طاقت کا غلط استعمال روکا جا سکے۔ ہر کسی کو سننے کا حق دیا جائے، اور کسی بھی اقدام سے پہلے اسے اپنے دفاع کا موقع ملے۔ اس عمل سے نہ صرف انصاف کے تقاضے پورے ھوں گے بلکہ ایف بی آر کی ساکھ بھی بہتر ہوگی۔
حالیہ برسوں میں بزنس کمیونٹی، چیمبرز آف کامرس، اور مختلف تجارتی تنظیموں نے بارہا مطالبہ کیا ھے کہ ایف بی آر کے ایسے قوانین پر نظر ثانی کی جائے، جو کاروباری ماحول کو نقصان پہنچا رھے ھیں۔ ان کے مطابق ٹیکس دہندگان کو دشمن نہ سمجھا جائے بلکہ ان کے ساتھ شراکت داری کا رشتہ بنایا جائے۔ یہ تاثر ختم ہونا چاہیے کہ ایف بی آر کا ہر افسر ایک انکوائری آفیسر ھے اور ہر تاجر مشکوک۔
پاکستان کی معیشت اس وقت نازک موڑ پر کھڑی ھے۔ مہنگائی، بیروزگاری، روپے کی قدر میں کمی، برآمدات میں کمی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کی کمی جیسے مسائل نے ایک عام شہری کو بھی متاثر کیا ھے۔ ایسے میں اگر ریاست اور عوام کے درمیان معاشی بھروسہ قائم نہ کیا جائے تو صورتحال مزید ابتر ھو سکتی ھے۔
ایف بی آر جیسے اداروں کا کردار صرف ٹیکس جمع کرنے تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ انہیں قومی معیشت کے استحکام میں مثبت کردار ادا کرنا چاہیے۔ اس مقصد کے لیے ضروری ھے کہ ادارہ ٹیکنالوجی کا مؤثر استعمال کرے، ٹیکس گزاروں کو سہولت فراہم کرے، اور قوانین میں انسانی پہلو اور عدالتی اصولوں کو مدنظر رکھے۔
اگر واقعی ایف بی آر ملک سے کرپشن اور ٹیکس چوری کا خاتمہ چاہتا ھے تو اسے اعتماد کی بحالی کے اقدامات کرنے ھوں گے۔ تاجر برادری کو دشمن سمجھنے کے بجائے شراکت دار سمجھنا ہوگا۔ ان کے خدشات کو سننا ھوگا، ان کے ساتھ مشاورت کرنی ہوگی، اور پھر کوئی بھی قانون بنانا ھوگا۔ 37AA جیسے قوانین کا اطلاق اگر شفافیت کے ساتھ کیا جائے، عدالتی نگرانی شامل ھو، اور جوابدہی کا واضح نظام موجود ھو، تو یہی قانون معیشت کی بہتری کا ذریعہ بھی بن سکتا ھے۔
آخر میں، یہ کہنا غلط نہ ھوگا کہ پاکستان میں قانون کی عملداری کے لیے سب سے اہم چیز “نیت” اور “طریقہ” ھے۔ اگر نیت اصلاح کی ھو اور طریقہ عدل و انصاف پر مبنی ھو تو سخت سے سخت قانون بھی قابل قبول بن جاتا ھے۔ بصورت دیگر، قانون ایک ایسا خوف بن جاتا ھے جو معیشت کو دیمک کی طرح چاٹ جاتا ھے۔
جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.