وزیر اعظم۔چیف جسٹس سپریم کورٹ اور وزیر توانائی کے نام اپیل شیخوپورہ کا شرمناک واپڈا واقعہ

شاہد نسیم چوہدری ٹارگٹ 0300-6668477

2

شیخوپورہ واپڈا آفس ایس ای/ مینیجر آپریشن سرکل شیخوپورہ میں ایک نحیف بزرگ خاتون اپنے بجلی کے بل کی درستی کے لیے آئی تھی۔ چہرے پر جھریاں، ہاتھوں میں رعشہ، لیکن دل میں امید کے دیے روشن تھے۔ اسے یقین تھا کہ سرکاری دفتر میں اس کی شنوائی ہوگی۔ مگر یہ کیا؟ اسے نہ صرف دفتر سے باہر نکال دیا گیا، بلکہ دھکے دیے گئے، گھسیٹا گیا، اور حد تو یہ کہ اس کی تذلیل کی گئی—دونوں پاؤں سے پکڑ کر گھسیٹ کرباہر پھینک دیا گیاصرف اس لیے کہ وہ اپنا حق مانگنے آئی تھی۔
یہ واقعہ صرف ایک عورت پر ظلم نہیں، بلکہ پورے نظام پر ایک طمانچہ ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو نے عوامی جذبات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔ لوگوں کے دل دہل گئے ہیں، اور سوال یہ اٹھ رہا ہے:
اصل مجرم کون ہے؟ گارڈ؟ ایس ای / ایس ڈی او انچارج واپڈا؟ یا وہ خاموش نظام جو ہر ظالم کو تحفظ دیتا ہے؟
خاتون اپنا درست بل لے کر دفتر میں داخل ہوتی ہے۔ بار بار دفتر کے عملے سے گزارش کرتی ہے کہ اس کا بل غلط ہے، اسے ری چیک کیا جائے۔ اس دوران گارڈ، جو “افسران بالا” کا فرمانبردار ہے، حکم کی تعمیل کرتے ہوئے خاتون کو دفتر سے زبردستی نکال دیتا ہے۔ خاتون مزاحمت کرتی ہے، اور پھر جو ہوتا ہے، وہ سب کی آنکھوں نے دیکھا—گارڈ اسے دھکے دیتا ہے، اسے زمین پر گراتا ہے، اور بالآخر دفتر کے باہر گھسیٹ کر پھینک دیتا ہے۔
یہ وہی گارڈ ہے جو اگر حکم نہ مانتا تو “ڈسپلن کی خلاف ورزی” پر فارغ ہوتا۔ اب حکم مانا تو “بزرگ شہری سے زیادتی” پر گرفتار ہوجائیگا۔ اور حکم دینے والے؟ وہ بدستور ایئرکنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھے چائے کی چسکیاں لے رہے ہیں۔ نہ ان کے خلاف کوئی انکوائری، نہ تبادلہ، نہ معطلی—کیونکہ اس ملک میں طاقت ہمیشہ کرسی کو حاصل ہوتی ہے، انسان کو نہیں۔قصور وار کون؟1. گارڈ؟۔جی ہاں، اس نے ہاتھ اٹھایا۔ قانون کے مطابق وہ قابلِ سزا ہے۔ لیکن کیا وہ اکیلا ذمہ دار ہے؟ وہ تو محض “حکم بجا لانے” والا ایک تنخواہ دار ملازم ہے۔
2.ایس ڈی او انچارج واپڈا؟
جی ہاں! وہی اصل مجرم ہے، جس نے یہ حکم دیا، یا کم از کم اس سب پر خاموش تماشائی بنا رہا۔ اگر ایک عام شخص دفتر میں گھنٹوں لائن میں لگ کر آتا ہے، تو افسران کی یہ اخلاقی و قانونی ذمہ داری ہے کہ اس کی بات سنی جائے، نہ کہ اسے ذلیل کیا جائے۔3. محکماتی نظام؟
یہی سب سے بڑا مجرم ہے۔ ایک ایسا نظام جہاں بزرگ شہریوں سے بدتمیزی کرنے والے بچ جاتے ہیں، اور زبان کھولنے والے سزا پاتے ہیں۔
آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 14 کے مطابق ہر شہری کو عزتِ نفس کا حق حاصل ہے۔ بزرگ شہری، جنہوں نے اس ملک کو سنوارا، ٹیکس دیا، بیٹے قربان کیے، ان کے ساتھ بدسلوکی نہ صرف آئینی جرم ہے، بلکہ انسانیت کی تذلیل بھی ہے۔ افسوس کہ ہمارے ادارے اکثر اس بنیادی حق کی نفی کرتے ہیں۔وزیر اعظم صاحب،چیف جسٹس سپریم کورٹ اوروزیرِ توانائی اور اعلیٰ حکام کہاں ہیں؟جناب وزیر توانائی! یہ صرف ایک واقعہ نہیں، بلکہ روزمرہ کی کہانی ہے۔ ہر شہر، ہر دفتر میں بزرگ شہری ذلیل ہوتے ہیں، لائنوں میں کھڑے ہو کر گر جاتے ہیں، اور واپسی پر ان کے ہاتھ میں نہ تو درست بل ہوتا ہے، نہ کوئی تسلی۔
اگر اس واقعے پر فوری اور سخت ایکشن نہ لیا گیا تو یہ ظلم کی ایک نئی مثال بن جائے گا۔ گارڈ کو معطل کر دینا کافی نہیں۔ انچارج واپڈا ایس ڈی او یا جو بھی حکم دینےوالا ہے،اس پر FIR درج کی جائے، انکوائری مکمل کر کے اسے عہدے سے برطرف کیا جائے، اور متاثرہ خاتون سے معافی مانگی جائے۔میڈیا، سوشل میڈیا، اور عوامی ردِعمل ۔اس ویڈیو کے وائرل ہوتے ہی عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا۔ مختلف حلقوں سے مطالبات کیے گئے کہ گارڈ نہیں، بلکہ حکم دینے والے کو بھی سزا دی جائے۔ صحافتی اداروں، انسانی حقوق کی تنظیموں، اور وکلا نے آواز بلند کی، مگر اصل انصاف ابھی تک منتظر ہے۔ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہمارے معاشرے میں طاقتور کی پشت پناہی ایک معمول بن چکی ہے۔ سرکاری ملازمین کو یہ زعم ہوتا ہے کہ ان پر کوئی ہاتھ نہیں ڈال سکتا۔ اور اسی زعم میں وہ قانون سے کھلواڑ کرتے ہیں، انسانیت کو روندتے ہیں، اور ریاست کو بدنام کرتے ہیں۔
چند سوالات جن کا جواب ہمیں خود سے پوچھنا چاہیے:
کیا ادارے عوام کی خدمت کے لیے ہیں یا ظلم کا اڈہ؟
کیا بزرگ شہریوں کو صرف ووٹ دینے کے دن یاد رکھا جاتا ہے؟
کیا ہم ایک ایسا معاشرہ بن چکے ہیں جہاں ظلم پر خاموش رہنا “دانائی” کہلاتا ہے؟
کیا گارڈ کو قربانی کا بکرا بنا کر اصل ذمہ داروں کو بچانا انصاف ہے؟
تجویز ہےکہ ہر سرکاری ادارے میں “شکایات سیل” کو فعال بنایا جائے۔
دفاتر میں کیمرہ نگرانی اور شہریوں کے ساتھ برتاؤ کا باقاعدہ کوڈ آف کنڈکٹ جاری کیا جائے۔
ہر ماہ “سائلین کا دن” رکھا جائے جہاں افسران بذاتِ خود درخواستیں وصول کریں۔
بزرگ شہریوں اور معذور افراد کے لیے علیحدہ کاؤنٹرز قائم کیے جائیں۔
اور سب سے بڑھ کر، کسی بھی شہری کو ہاتھ لگانے والے اہلکار کو فوری برطرفی اور قانونی کارروائی کا سامنا کرنا چاہیے، چاہے وہ گارڈ ہو یا گریڈ 20 کا افسر۔
آخر میں، ہم سب کو یہ سمجھنا ہوگا کہ “حکم کی تعمیل” اور “انسانیت کی تذلیل” میں فرق ہوتا ہے۔ اگر کوئی حکم انسانیت کے خلاف ہو تو اس کی تعمیل خود ایک جرم ہے۔ گارڈ نے جو کیا وہ بھی غلط تھا، مگر وہ جو کرسی پر بیٹھ کر یہ ظلم کرواتا ہے، ایس ڈی او یا ایس ای وہ اصل مجرم ہے۔
وزیر توانائی، وزیرِ اعظم، اور چیف جسٹس سپریم کورٹ سے اپیل ہے کہ اس واقعے کو مثال بنایا جائے، نہ کہ معمول۔
ورنہ کل کو ہم میں سے ہر کوئی، کسی نہ کسی دفتر کے باہر، ہاتھ جوڑتا ہوا کھڑا ہوگا — اور کوئی​

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.