دن کیسے گزر جاتے ہیں پھر لوٹ کے نہیں آتے انسان پیٹ کی خاطر اپنی زندگی میں اس قدر مصروف ہو جاتا ہے کہ کتنے ہی پیارے رشتے دور ہو جاتے ہیں بندی خدا نے آرگینک ویلج ڈیفنس مین بلیوارڈ لاہور میں زرقاپبلیکیشنز انٹرنیشنل کا سٹال لگایا ہے کتاب پڑھنے کا رحجان کم ہو چکا ہے اس پر نئے دور کے ابلاغی وہیپن چھائے ہوئے ہیں مطالعہ صرف لفظ بن کر رہ چکا ہے اس سے آشنائی اب خال خال ہے اس لیے سٹال پر کتابوں کے ساتھ سٹیشنری اور ہینڈی کرافٹ بھی لگا لیے تاکہ عوام کی توجہ کا مرکز بنے ہفتہ اتوار رش ہوتا ہے زیادہ تر لوگ ہفتہ اتوار کو ہی سٹال لگاتے ہیں راقمہ روز ہی یہ ذمہ داری نبھاتی ہے رات 12 بجے کے بعد واپسی ہوئی گھر آنے کے بعد ابھی فیس بک اوپن کیا ہی تھا کہ سامنے استاد شاعر محترم صفدر حمدانی کی پوسٹ دیکھی “خبر۔ غم” عبیدہ سید آج 24 مئ لنڈن میں انتقال کر گئ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھ کر یکدم بچپن میں چلی گئ جہاں نہ کمانے کہ ہوش نہ کوئی فکر سکون اور خوشیاں ساتھ تھی اب سب نگاہوں میں گھومنے لگا ذہن میں کسی فلم کی طرح نانا جان کا گھر اور بیتے پل یاد آنے لگے جب سب میرے نانا “میجر میاں اے ڈی خورشید” کے گھر اکٹھے ہوا کرتے تھے آنٹی عبیدہ ماموں اعظم خالہ عزرا خالو آفتاب احمد خان باقی ساے ماموں اور خالہ ہم سب بہن بھائی اور میری والدہ بھی بڑے سب ایک جگہ ہو جاتے اور ہم سب بچے اپنی ٹولیاں بنا لیتے شاعری گیت سنگیت بیت بازی قافیے ملانے پکوان باغ سے پھولوں کے ساتھ ساتھ پھل اور سبزیاں بھی توڑنی نانا جان کا گھر بہت بڑا تھا جس کا بہت بڑا صحن کشادہ کمرے وسیع برآمدے بڑا سا لان جس میں ہر طرح کے پھل پھول سبزیاں مل جاتی کیا وقت تھا ماموں اعظم آنٹی عبیدہ سے میری چار کزن ہیں ماموں اعظم نے دو شادیاں کیں پہلی آنٹی عبیدہ سے دوسری آنٹی فرح سے جن سے دو بچے ہیں ایک بیٹی اور ایک بیٹا ماموں اعظم آنٹی فرح چھ ماہ کے فرق سے دنیا سے رخصت ہوگئے جب ماموں نے دوسری شادی کی آنٹی بیٹیوں کو لے کر لنڈن چلی گئیں دوسری عورت کا دکھ کوئی عورت برداشت نہیں کرتی بندیا ندیا ماموں کی بڑی بیٹیاں میری ہم عمر تھیں ہم بچپن میں اکٹھے کھیلا کرتے تھے وہی سب یاد آنے لگا آنٹی ہم سے بہت پیار کرتی تھیں ان کا میری والدہ سے بڑا پیار تھا وقت گزرتا گیا حالات بدلتے گئے بڑے رخصت ہوئے بچے بڑے ہوگئے اور زندگی کی تلخیوں میں بچپن کے سنہری پل کھو گئے آج بھی وہ بیتے زمانے یاد آتے ہیں بہت رلاتے ہیں آنٹی ناصرف ریڈیو کی پہچان بنی ادب میں بھی آپ نے اپنے قلم کا جادو چلایا فیس بک نے بہت سے پیاروں سے ملوایا ایک دن آنٹی نے فیس بک پر میسج کیا بیٹا تمہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے بہت کم عمری میں اپنے کام سے نام پیدا کیا ہے ایک دو بار بندیا اور ندیا سے بھی فیس بک پر ہی بات ہوئی ہم بھولے کچھ نہیں بس حیات میں کھو گئے آج جب آنٹی کے انتقال کی خبر پڑھی احباب یقین جانیے تڑپ گئ ہوں آنٹی میرے دل سے دل تک ادبی آرٹ نگر کی ممبر بھی تھی وٹس اپ گروپ کا حصہ بھی اور اکثر ہماری بات بھی ہوتی رہتی ایک روز محترم اعتبار ساجد بابا کی کال آئی بتا رہے تھے بیٹی عبیدہ سے بات ہوئی تمہاری بہت تعریف کر رہی تھی میں نے بھی اپنے عزیز دوست شاعر افتخار راجہ “جو میرے والد محترم ہیں” کی دختر کی تعریف کی سن کر بہت خوشی ہوئی آنٹی اکثر فون پر سب کا پوچھتی رہتی زرقا بیٹا تمہاری خالہ کیسی ہے ماموں کیا کرتے ہیں باقی سب بہن بھائی کیا کرتے ہیں عدیم میرے بھائی “پروفیسر ڈاکٹر عدیم افتخار قادری” کو اور تمہیں دیکھ کر بہت خوشی ہوتی ہے بہت دعائیں دینی اب کچھ عرصہ سے گفتگو نہیں ہوئی تھی آنٹی کو جوڑوں کے درد کا مسلہ تھا یہی کہتی بیٹے چلا نہیں جاتا بہت درد ہوتا ہے میں جب بھی پاکستان آونگی تم سے ضرور ملونگی میں نے بھی کہنا آنٹی میرا بھی بہت دل ہے آپ سے ڈھیر ساری باتیں کرنی ہیں ریکارڈنگ کرونگی انسان کیا کیا سوچتا ہے اور کیا ہو جاتا ہے اب نہ آنٹی سے بات ہوگی نہ وہ پاکستان آئیں گی ایک بار جو بچھڑ جائے پھر کب ملتا ہے لیکن ہمیشہ دل میں پیاری یادوں کے ساتھ آباد رہیں گی وہ سب کچھ یاد ہے اللہ آنٹی کی معغفرت فرمائے جو دکھ دنیا میں دیکھے آگے کی منزلیں اتنی آسان کردے درجات بلند فرمائے آمین ۔۔ 🙏🏻😭