کہہ رہا ہے شور دریا سے سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے اتنا ہی وہ خاموش ہے
کہتے ہیں کہ خاموشی کمزوری نہیں ہوٹی بلکہ طاقت ور ہونے کی نشانی ہوتی ہے ۔یہ برداشت اور حوصلہ مندی کی علامت ہوتی ہے ۔آپ صرف اس بات سے ڈرتے ہیں کہ اگر آپ نے لب کھولے تو بہت کچھ تباہ ہو جاۓ گا اورطاقت چاہے جسمانی ہو یا ذہنی کبھی تباہی اور نقصان نہیں چاہتی ۔اگر آپ طاقت ور ہیں تو کچھ بھی ثابت کرنے کی ضرورت نہیں بس خاموش رہیں آپکی طاقت کی وقت خود گواہی دے گا ۔خاموش رہ کر لوگوں کے رویوں کو محسوس کریں یقین جانیے آپ بہت سارے غلط فیصلوں سے بچ جائیں گے ۔طاقت ور اور عقلمند وہ نہیں ہوتا جو ہر بات کا جواب جانتا ہو بلکہ عقلمند وہ ہوتا ہے جو ہر بات کا جواب دینا ضروری نہیں سمجھتا ۔ عقل مند اور طاقت ور لوگ بولنے سے پہلے سوچتے ہیں اور سوچنے سے پہلے خاموش رہتے ہیں ۔اکثر ہم ہر گفتگو میں جیتنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اصل دانائی اور طاقت یہ ہے کہ ہم خاموشی سے کسی بےوقت بات کو مسکراہٹ کے ساتھ ٹال دیں کیونکہ ہر سول کا جواب ضروری نہیں ہوتا لیکن ہر جواب کا اثر ضرور ہوتا ہے ۔ہماری امی جان کہتی تھیں کہ “ایک چپ سو کو ہرا ۓ “یعنی آپ کی ایک چپ یا خاموشی سو بندوں کو بیک وقت جواب دے کر ہرانے کی صلاحیت رکھتی ہے ۔بعض اوقات خاموشی ہی سب سے بہتر اور پر اثر احتجاج اور شکایت بھی ہوتی ہے اور انتقام بھی ہوتی ہے ۔اسی لیے کہا جاتا ہے کہ دو چیزیں اپنے اندر پیدا کر لو “چپ رہنا ” اور “معاف کرنا” کیونکہ چپ رہنے سے بڑا کوئی جواب نہیں اور معاف کر دینے سے بڑا کوئی انتقام نہیں ہوتا ۔جب الفاظ کم اور اثر زیادہ ہو ں تو ان کی اہمیت بڑھ جاتی ہے اس لیے جو الفاظ زبان سے ادا کرنے مشکل ہوتے ہیں وہ خاموشی بڑی مہارت سے کہہ گزرتی ہے ۔سب سے طاقت ور خلیفہ اسلام حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا ایک مشہور قول ہے “تم لوگ باطل کو ہلاک کرو اس کے بارے میں چپ رہ کر “چپ رہنے کا مطلب نظر انداز کر دینا اور اہمیت نہ دینا بھی ہے ۔بہت سے لوگ خاموشی کو طاقت کا استعارہ کہتے ہیں ۔ان کے نزدیک خاموشی کا مطلب مضبوط قوت گویائی ہوتا ہے ۔خاموشی خود بھی ایک منفرد زبان ہے جو بنا بولے ہی سمجھ آتی ہے ۔کہتے ہیں کہ دنیا بھر کے خفیہ اداروں میں بھی خاموشی تربیت کا سب سے اہم جزو ہوتی ہے ۔ہمارے استاد کہتے تھے کہ کوئی سبق سمجھنے ،سیکھنے اور اسے مکمل ذہن نشین کرنے کے لیے خاموشی سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں کیونکہ خاموشی توجہ دلاتی ہے ۔یہ وہ کامیابی کی سیڑ ھی ہے جو وقت ضائع کئے بغیر آپ کی منزل کا سفر آسان بنا دیتی ہے۔
کئی جوابوں سے اچھی ہے خامشی میری
نہ جانے کتنے سوالوں کی آبرو رکھ لی
کہتے ہیں کہ خاموشی ایک ایسی بڑی طاقت ہے اسے ہمیشہ اپنے حق میں استعمال کیا جا سکتا ہے ۔اباجی کہا کرتے تھے کہ جو بات کہنے کے قابل نہ ہو اسے خاموشی میں دفن کر دینا بہتر ہوتا ہے ۔خاص طور ہمارے الفاظ کمزور ہوں تو خاموشی سب سے مضبوط جواب بن جاتی ہے ۔وہ کہتے تھےکہ خاموشی بہترین ہتھیار ہے خاص طور پر اس وقت جب لوگ آپ سے چیخنے کی توقع کریں کیونکہ خاموشی کے ہتھیار کا اپنا ہی ایک خوف اور دبدبہ ہوتا ہے ۔خاموشی انسان کی اصل شخصیت کی عکاسی کرتی ہے اور خاموشی کا یہ فن ایسا ہے جو ہر کسی کو نہیں آتا ۔خاموشی وہ روحانی جگہ ہے جہاں سے انسان خود کو اور اپنے رب کو پہچان سکتا ہے ۔اسی لیے حدیث مبارکہ ہے کہ “جو شخص چپ رہا اس نے نجات پائی ” اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان بولنا ہی چھوڑ دۓ بلکہ اس کا مطلب ہے کہ تب بولے جب وہ سوچنے کا کام مکمل کرلے ۔کیونکہ کمان سے نکلا ہوا تیر تو واپس آسکتا ہے لیکن زبان سے نکلا لفظ کبھی واپس نہیں آتا ۔ ایک اور حدیثمیں فرمایا کہ ‘عبادت کے دس حصے ہیں جن میں سے نو حصے خاموشی میں اور ایک حصہ لوگوں سے دور رہنے میں ہے ” گو آواز یا گفتگو کی غیر موجودگی کو خاموشی کہا جاتا ہے انسان کی خاموشی اختیاری بھی ہوتی ہے اور بسااوقات یہ حادثاتی بھی ہوتی ہے ۔اختیاری خاموشی ذہنی و جسمانی طاقت کا استعارہ ہوتی ہے ۔ایک بزرگ کا قول ہے کہ خاموشی ایک ایسی عبادت ہے کہ فرشتہ اسے لکھ نہیں سکتا اور شیطان اسے بگاڑ نہیں سکتا اور میرے رب کے سوا کوئی اسے جا ن نہیں سکتا ۔خاموش لوگ دراصل اللہ کی خاص بندے ہوتے ہیں الجھاو ان کی فطرت کا خاصہ نہیں ہوتا وہ ہر زیادتی پر محض وضاحت کرکے خاموش ہو جاتے ہیں ان کا مقدمہ اللہ کی عدالت میں پیش ہوتا ہے اور فرشتے ان کی طرف سے جواب دیتے ہیں ہم نادانوں کو اس کا علم نہیں کہ “خاموش لوگ ” کتنے طاقتور ہوتے ہیں ؟ اور ان کی رسائی کہاں تک ہے ؟ ان سے الجھنے میں بربادی کے سوا کچھ نہیں ملتا ۔بعض اوقات ہمارے اندر الفاظ کا سمندر ٹھاٹھیں مارتا ہے مگر ہماری بردباری کچھ کہنے ،شکوہ کرنے ،جتانے کو یا ہمدردی کرنے سے روک دیتی ہے یہی خاموشی کی بادشاہت اور اختیار ہے ۔ہمیشہ اندر سے خالی برتن آواز دیتے ہیں بھرے ہوۓ برتن زیادہ تر خاموش رہ کر اپنی دلیری اور بڑائی کا اظہار کر دیتے ہیں ۔لیکن بعض اوقات بےبسی اور درد کا حد سے گزر جانا بھی انسان کو خاموش کر دیتا ہےلیکن اس کی خاموش چیخ کی گونج فضاوں میں ہر سو بکھر جاتی ہے ۔
خاموشی کی کتنی زبانیں ہوتی ہیں نا
دکھ ،گلہ ،غصہ ،انا اور بے بسی
کہتے ہیں خاموشی کی عظمت تب ہے جب آپ کے پاس کہنے کو بہت کچھ ہو اور بولنے کی طاقت بھی ہو اور آپ چپ ہوں ۔آج ہمارے معاشرۓ میں بےتحاشا اور بے مقصد بولنے کا رجحان بڑھ رہا ہے کوئی دوسرے کی بات سننے کو تیار دکھائی نہیں دیتا ۔اپنی ہی بات سنا نا چاہتا ہے۔میں نے کسی ایک آرٹیکل میں پڑھا تھا کہ ایسے دور میں ضرورت اس بات کہ ہےکہ لوگوں کو چپ رہنا سکھایا جاۓ لوگوں کو بتایا جاۓ کہ چپ رہنا کوئی سادہ اورآسان عمل نہیں ہے یہ بڑا مشکل کام ہے ۔بولنے کے لیے زبان اور گلے کی طاقت استعمال کرنی پڑتی ہے جبکہ چپ رہنے کے لیے دماغ کی طاقت اور صلاحیت درکار ہے اور خاموشی سوچنے کی صلاحیت کو استعمال کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے ۔بولنے کے اس دور میں لوگوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ انسان کے ہر ہر لفظ کا احتساب ہوگا ۔اس لیے کم بولنے اور خاموش رہنے کا مطلب اپنے احتساب میں کمی لانا اور زیادہ بولنا اپنے احتساب کو بڑھانا ہے کیونکہ زیادہ بولنے سے سے زیادہ غلطیوں کا امکان ہوتا ہے اور زیادہ غلطیوں پر زیادہ احتساب ہو گا ۔یہ تب ہی ممکن ہے جب ہم خاموشی کو اپنی گفتگو اور بے زبانی کو اپنی زبان بنا لیں۔کیونکہ چپ کی زبان دنیا کی طاقتور ترین اور بلند ترین زبان ہوتی ہے۔جو زمین پر ہی نہیں آسمان پر بھی سنی جاتی ہے ۔آج دنیا بھر کے بےشمار مظلوم اور بےبس لوگوں کی خاموش آوازیں آسمان چیر رہی ہیں ۔یقین کریں یہ سب نہ صرف سنی جارہی ہیں بلکہ ان کی خاموش آوازیں ہمیشہ کے لیے محفوظ کرلی گئی ہیں جو ہمیشہ کسی نہ کسی شکل میں ہمیں سنائی دیتی رہیں گی ورنہ ان کا درد تو ہمیں محسوس ضرور ہوگا ۔
آو چپ کی زبان میں خاور
اتنی باتیں کریں کہ تھک جائیں