یوم مئی۔۔۔عملی اقدامات کی ضرورت

تحریر۔ شفقت اللہ مشتاق

2

مزدور جب خون پسینہ ایک کرتا ہے تو ترقی کا پہیہ آگے کو بڑھتا ہے اور پھر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اس پیرائے میں دیکھا جائے تو مزدور کی خدمات کو سلام پیش کرنے کو ہر ذی روح اور ذی فہم کا جی چاہتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ نبی برحق صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے کہ مزدور کی مزدوری اس کے پسینہ خشک ہونے سے پہلے ادا ہونی چاہیئے۔ ادائیگی بروقت ہی ہونی چاہیئے نہیں تو نسلوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ متعدد احادیث اور قرآن مجید کی آیات سے واضح ہوتا ہے کہ مزدور کا کام اپنی نوعیت کے اعتبار سے کتنا ضروری ہے اور اہم ہے۔ حالات کی ستم ظریفی کہ ہم سب مزدور کے بارے میں اچھے بلکہ بہت ہی اچھے جذبات رکھتے ہیں اس کے حقوق کے بارے میں بات کرتے ہیں بلکہ بڑے بڑے سیمینار بھی کرتے ہیں اور دھواں دھار تقاریر اور شعروادب سے اس کے حق میں آواز اٹھاتے ہیں لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ محض باتیں ہی باتیں ہیں آج تک سوائے چندے باقی سب ممالک نے کوئی اس کی فلاح وبہبود کے لئے عملی اقدامات نہیں کئے ہیں۔ یکم مئی جوش وخروش سے منایا جاتا ہے لیکن ان لوگوں کے علاوہ جن کا کتاب کے ساتھ خصوصی لگاو ہے کسی کو یکم مئی کے پس منظر کا پتہ تک نہیں ہے۔ مزدور کی فلاح و بہبود کے لئے قانون ساز اداروں نے ڈھیروں قوانین بنا دیئے ہیں اور ان قوانین کے عملدرآمد کے لئے ان گنت ادارے معرض وجود میں آچکے ہیں لیکن ان قوانین کے عملدرآمد کا باب محض مایوسی پریشانی اور ناکامی کے کچھ نہیں ہے۔ ہیومن رائٹس کو یقینی بنانے کے لئے نجی ادارے اور این جی اوز کام کررہی ہیں لیکن ان سب کا سوفٹ کام ہے۔ مذاکرے ہورہے ہیں۔ سیمینار اور زبردست فکرانگیز گفتگو اور میلوں لمبی واک ہائے کا انتظام اور پھر زبان زد خاص وعام۔ سارا چکر فنڈنگ کا ہے۔ مزدور آج بھی بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ اس کا بیٹا آج بھی اس لئے مزدور بننے پر مجبور ہے کہ اس کے مزدور باپ کے پاس اس کی مناسب تعلیم وتربیت کرنے کی سکت نہیں ہے۔ اس مزدور کو اپنا بجلی کا بل ادا کرنے کے لئے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانا پڑتا ہے بصورت دیگر بجلی منقطع اور کنکشن بحالی کے لئے پھر واپڈا ملازمین کے منت ترلے اور ان کی مٹھی گرم یوں اصل کے ساتھ زر کی ادائیگی جبکہ اس کا شام کا چولہا کس طرح جلنا ہے یہ ایک اور درد ناک کہانی ہے۔ ابھی تو اس نے اپنی بیٹی کے ہاتھ پیلے کرنے ہیں اور اس کے لئے مناسب رشتہ تلاش کرنا اور لڑکے والوں کے جہیز کے مطالبات پورے کرنا۔ ان سارے کاموں کے لئے ہی تو وہ طلوع آفتاب کے ساتھ ہی گھر چھوڑ دیتا ہے اور سردی گرمی اس کے سامنے کوئی اہمیت نہیں رکھتے ہیں۔ متمول طبقہ اسکی ہر خواہش پوری کرسکتا ہے لیکن میں ناں مانوں۔ یہی مزدور ان کی مالش بھی کرتا ہے۔ ان کے جوتے بھی پالش کرتا ہے۔ ان کو بناتا بھی ہے اور سنوارتا بھی ہے اور آخر پر مزدوری۔ اف اللہ آنے آنے کا حساب اور ایسے جیسے بھیک دی جاتی ہے۔ پسینہ خشک ہونا تو دور کی بات ہے خون پسینہ ایک کرنے کے باوجود مزدوری پوری نہیں دی جاتی ہے۔ بلکہ دھتکار دیا جاتا ہے اور بعض اوقات تو بات بڑ جائے تو بات طمانچوں تک پہنچ جاتی ہے بلکہ مخصوص حالات میں قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آجاتے ہیں اور پھر چوری، راہ زنی اور ڈاکے کے پرچے اور نویں رولے(افلاس نے بچوں کو بھی تہذیب سکھا دی۔۔۔سہمے ہوئے رہتے ہیں شکایت نہیں کرتے) اگر کوئی دل جلا اس ساری صورت حال پر پریشان ہوکر مالک کائنات کے حضور شکوہ کردے تو پھر فتوے شتوے اور ایک نئے انداز سے قانون نافذ کرنے والے اداروں میں تحریک کی ایک نئی لہر۔ لہروں کے اٹھنے سے بلکہ لہروں کے جوش میں آجانے سے طغیانی تو پھر آتی ہے اور اس طغیانی کا نتیجہ کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ مزدور اپنے حقوق کے حصول کے لئے مارا بھی جا سکتا ہے اور وہ مایوسی اور غیر یقینی صورتحال کے پیش نظر کسی کو بھی مار سکتا ہے۔ اس ساری کیفیت کو طوائف الملوکی کہتے ہیں۔
یکم مئی کو مزدوروں کے عالمی دن کے طور پرمنایا جاتا ہے۔ اس کا پس منظر بھی ایک درد ناک اور خوفناک کہانی ہے جو کہ پوری دنیا کے انسانوں کو اس لئے سنانا ضروری ہے تاکہ استحصالی قوتوں کو سب کے سامنے بے نقاب کیا جا سکے۔ مل میں کام کرنے والا ہو، کھیتوں کھلیانوں میں کام کرنے والا ہو یا گھروں میں کام کرنے والا مزدور سب کی ایک ہی کہانی ہے۔ جھاڑ جھپاڑ، لعن طعن، تشدد ودد اور پھر ہر قسم کا استحصال۔ تنگ آمد بجنگ آمد۔ اس غیر انسانی سلوک کے خلاف امریکا کے شہر شکاگو کے مزدور یکم مئی 1886 کو اکٹھے ہو گئے اور پھر سرمایہ دارانہ قوتوں کا ایسا ردعمل جس کے نتیجے میں بے شمار مزدوروں کا قتل عام اور زخمیوں کی تعداد ان گنت۔ انسانیت بھی کلبلا اٹھی اور اس بات کو محسوس کر گئی اور پھر ہر سال یکم مئی آتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ باقاعدہ پوری دنیا میں چھٹی کی جاتی ہے اور پھر صاحب حیثیت لوگ گھروں میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ آرام کرتے ہیں نہ جانے مزدور اس دن کو اپنی ضروریات پوری کرنے کے لئے کیا کرتا ہوگا چونکہ وہ روزانہ کی بنیاد پر کماتا ہے اور کھاتا ہے۔ یکم مئی مزدور کے حق میں آواز اٹھانے کا دن ہے۔ آوازیں تو بہت اٹھتی ہیں اور پھر جہان رنگ وبو میں گم ہو جاتی ہیں۔ بے چارے مزدور کے حالات جوں کے توں اور امیر طبقہ اگلے دن ہی آنکھیں ماتھے پر رکھ کر اعلان کردیتا ہے۔ توں کون میں کون۔ اور مزدور بے چارہ شاید گنگناتا ہوگا” بلہیا کی جاناں میں کون” سوشل میڈیا نے بہرحال متذکرہ بالا جیسے حساس موضوعات پر

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.