پنجاب میں پاور شیئرنگ اور دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا تنازعہ

آج کا اداریہ

3

پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی کوآرڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں پنجاب میں پاور شیئرنگ کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال اور ملکی حالات کے پیش نظر ساتھ چلنے پر اتفاق کیا گیا۔

تفصیلات کے مطابق گورنر ہاؤس پنجاب میں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس ہوا۔

اجلاس میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ، اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک محمد احمد خان اور سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب شریک ہوئیں جب کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر ، ندیم افضل چن، حسن مرتضیٰ اور علی حیدرگیلانی نے شرکت کی۔

کمیٹی کے کچھ رہنماؤں نے زوم کے ذریعے اجلاس میں شرکت کی جب کہ کوارڈینیشن کمیٹی کے اجلاس میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور سمیت دیگر افسران بھی شریک ہوئے۔

کوآرڈینیشن کمیٹی نے پنجاب میں پاور شیئرنگ کے حوالے سے اب تک ہونے والی پیش رفت پر تبادلہ خیال کیا جب کہ سب کمیٹی کی ملاقاتوں میں ہونے والے فیصلوں پر مشاورت کی۔

بعد ازاں، اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کے دوران پاکستان پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے سیکریٹری جنرل حسن مرتضیٰ نے اسمبلی میں پیش کیے گئے بلدیاتی بل پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے بلدیاتی انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملکی حالات کے پیش نظر ساتھ چلنے پر اتفاق ہوا، امید ہے کہ ہم مزید آگے بڑھیں گے جب کہ اجلاس میں زراعت اور گندم سے متعلق بات ہوئی اور گورننس سے متعلق تحفظات بھی رکھے۔

حسن مرتضیٰ نے کہا کہ پانی کی تقسیم ارسا طے کرتا ہے، کینالز کا معاملہ تکنیکی ہے اور اسے تکنیکی بنیاد پر ہی دیکھنا چاہیے، نئی نہریں نکالی جائیں گی تو اس کے لیے پانی کہاں سے آئے گا جب کہ اس وقت ہم اپنے اپنے موقف کے ساتھ کھڑے ہیں، گفتگو کے بعد بہتر راستہ نکلے گا۔

اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے ملک احمد کا کہنا تھا کہ ارسا میں پانی کی تقسیم کا معاملہ طے ہے جس پر سب کا اتفاق ہے، سندھ کا حق ہے کہ وہ اپنے پانی کی حفاظت کرے۔

انہوں نے کہا کہ بتایا گیا 10 ملین ایکڑ پانی کا گیپ ہے ، سندھ اور پنجاب کے درمیان پانی کے معاملات پر ڈیٹا کے مطابق بات کریں گے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ مقامی سطح پر عوامی نمائندوں کو اختیار ملنا چاہیے، پیپلزپارٹی بھی چاہتی ہے پنجاب میں اچھی گورننس ہو۔

ادھر سندھ میں دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کے خلاف سندھ بھر میں احتجاج جاری ہے، جام شورو، لاڑکانہ، نوشہر و فیروز، سجاول، نواب شاہ اور گھوٹکی سمیت کئی شہروں میں شٹر ڈاون ہڑتال ہے۔

دوسری جانب خیر پور میں ببرلو بائی پاس پر وکلا کا دھرنا تیسرے روز بھی جاری ہے، اس کے علاوہ سندھ اور پنجاب کے درمیان ٹریفک معطل ہے۔

واضح رہے کہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) اور اس کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کے درمیان بڑھتے ہوئے اختلافات دور کرنے کے لیے پہلی باضابطہ ملاقات گزشتہ سال 10 دسمبر کو ہوئی تھی جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہوگئی تھی جس کے بعد متعدد اجلاس ہوچکے ہیں۔

تاہم، 10 مارچ 2025 کو وزیراعظم شہباز شریف سے چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں وفد نے ملاقات کی تھی جس میں شہباز شریف نے بلاول کو تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی۔

وزیرِاعظم ہاؤس میں ہونے والی ملاقات میں سیاسی امور پر تبادلہ خیال کیا گیا جب کہ پنجاب میں پاور شیئرنگ کے معاملات پر بھی غور کیا گیا۔

بعد ازاں، کینالز کے معاملے پر دونوں جماعتیں آمنے سامنے آگئیں اور اس دوران دونوں جانب سے بیان بازی کی گئی، یہاں تک کہ پیپلزپارٹی نے وفاقی حکومت سے علیحدہ ہونے کی دھمکی بھی دے دی۔

جس کے بعد گزشتہ روز، وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے پیپلزپارٹی کے تحفظات دور کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

جس کے بعد رانا ثنااللہ نے سندھ کے سینئر وزیر شرجیل انعام میمن سے ٹیلی فونک رابطہ کیا اور دونوں رہنماؤں نے بات چیت سے مسئلہ حل کرنے پر اتفاق کیا گیا۔
واضح ہو کہ جمعیت علماءاسلام نے دریائے سندھ پر نئے کینالوں کے خلاف سینیٹ میں قرارداد جمع کرادی۔
سینیٹر کامران مرتضیٰ نے جے یو آئی سندھ کی درخواست پر سینیٹ میں تحریک جمع کرائی۔
سینیٹ میں جے یو آئی کی جمع کرائی گئی قرارداد کے مطابق سندھ کے عوام کے تحفظات کا فوری ازالہ کیا جائے۔ جے یو آئی پاکستان نے مطالبہ کیا کہ دریائے سندھ پر غیرقانونی کینالوں کی تعمیر بند کی جائے، سندھ کی تقسیم پر خاموش نہیں رہیں گے۔

سینیٹر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ دریائے سندھ کا پانی چھیننے کی ہر سازش کا پارلیمان میں محاسبہ کریں گے، وفاقی حکومت سندھ دشمن منصوبوں پر وضاحت دے۔
یاد رہےمرکز میں دونوں پڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کی کولیشن گورنمنٹ ہے جبکہ صوبہ پنجاب میں مسلم لیگ ن اور سندھ میں پیپلزپارٹی کی حکومتیں ہیں دونوں جماعتوں کو اہنے اپنے صوبوں کے مفادات عزیز ہیں۔ پانی کی تقسیم کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان کشیدگی بڑھ رہی ہے۔ پنجاب کا علاقہ چولستان جہاں قلت آب ہے جسکی وجہ سے وہاں کی زمینیں بنجر اور عوام بدحالی کا شکار ہیں مریم نواز گورنمنٹ کی کوشش ہے کہ اس علاقے کو سرسبزوشاداب بناکر عوام کی محرومیاں دور کی جائیں اسکے لیے پانی کی وافر مقدار کی ضرورت ہے جسکیلیے دریائے سندھ سے نہریں نکالنے کا منصوبہ بنایا گیا تاہم سندھ گورنمنٹ اس منصوبے کو کسی صورت قبول کرنے کو تیار نہیں۔ دوصوبوں کے مابین اس تنازعے کو لیکر مرکز میں بھی ادکے اثرات مرتب ہوئے جنہیں دور کرنے کیلیے مرکزی قیادت کو آگے آناہوگا۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.