بربادی سے بچنے کیلئے جاگنا ہوگا

جاوید تنویر

1

کالم ۔۔۔ہمارے اردگرد اتنے واقعات رونما ہورہے ہیں مگر ہمیں کسی سے کوئی سروکار نہیں ۔معاشرتی بے حسی اور عدالتی ناانصافی: ایک ایسا خطرناک المیہ ہے جس کا سدباب کیے بغیر ملک و قوم کا وجود قائم رہنا ناممکن ہے۔کیا ہم بحیثیت قوم اتنے سنگدل ہو چکے ہیں کہ کسی مظلوم کی آخری چیخ و پکار، اس کی جلتی ہوئی کھال، اس کے تڑپتے وجود اور اس کے خاندان کی بربادی ہمیں جھنجھوڑنے سے قاصر ہے؟۔ہمارے دل ودماغ میں دشمنی کا زہر کس نے بھر دیا ہے کہ نئی نسل ہر وقت لڑنے پر آمادہ نظر آتی ہے ۔
ایک شخص سالہا سال انصاف کے لیے عدالتوں کے چکر کاٹتا رہا، تاریخوں پر تاریخیں ملتی رہیں، جج بدلتے رہے، وکیل آتے جاتے رہے، مگر مقدمات اس کے حق میں ہو جانے کے باوجود انصاف کا دروازہ اس پر بند ہی رہا۔اس طرح کے لاکھوں مقدمات برس ہا برس سے التوا کا شکار چلے آرہے ہیں ۔داد رسی کے لئے آخری امید کے طور پر عدالتوں کا دروازے پر بڑی مشکل سے پہنچتے ہیں مگر یہاں پر کوئی شنوائی نہیں اور انصاف کے متلاشی اس نظام سے اتنے مایوس ہو گئے کہ دل برداشتہ ہوکر اپنے جسم کو آگ لگالیتے ہیں ! مگر کیا کسی جج کے دل پر چوٹ لگی؟ کیا کسی اعلیٰ عدالتی منصب پر فائز شخصیت نے اپنے ضمیر سے سوال کیا کہ آخر یہ سب کیوں ہوا؟آخر ایسا کیوں ہے ؟۔کیونکہ جن پر اثر پڑنا چاہیے تھا، انہیں تو ہچکولے کھاتے انصاف کا ترازو پکڑنے تک کی فرصت نہیں۔اقتدار کے ایوانوں میں حکمرانوں کو اقتدار بچانے سے فرصت نہیں اور اقتدار سے باہر حزب اختلاف کو اقتدار کے حصول کے لیے اختجاجی سیاست سے فرصت نہیں تمام فریق عوام کے خون پسینے کی کمائی پر عیش و عشرت کرنے میں مست ہیں ان ظالموں کو عوام کے دکھوں کا کیا احساس؟اب سوال یہ ہے کہ اس واقعے کے بعد کیا ہوا؟کسی ذمہ دار کو سزا ملے گی کہ نہیں!
الٹا موردِ الزام کون
ٹھہرایا جائے گا؟ وہ جلنے والا مایوس انسان یا بیچارا عام سیکیورٹی اہلکار، جس کے اختیار میں کچھ نہیں تھا! وہی معمولی اہلکار جس کی ڈیوٹی تھی کہ ہائی کورٹ میں آنے والوں کی تلاشی لے۔ سوچیں کہ کیا وہ عدالتی ناانصافی کا ذمہ دار تھا؟ کیا اس کے ہاتھ میں تھا کہ وہ کسی کو فوری انصاف فراہم کر سکے؟.نہیں! مگر قربانی کا بکرا وہی بنیں گے کیونکہ اصل ذمہ داروں تک پہنچنے کی ہمت کسی میں بھی نہیں۔ہم کس طرف جا رہے ہیں؟۔معاشرتی زوال کی اس سے بڑی نشانی اور کیا ہو سکتی ہے کہ مظلوم جل مرے، لوگ تماشا دیکھیں، مگر ظالم کا کوئی بال بھی بیکا نہ کر سکے؟ ۔معاشرے کی بے حسی اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ ہم دوسروں کو تڑپتا، جلتا اور سسکتا دیکھ کر بھی اپنی آنکھیں بند رکھتے ہیں۔ کسی کی مدد تو دور کی بات، ہم ایک لفظ بھی اس کے حق میں بولنے سے گھبراتے ہیں کہ کہیں ہمارا نقصان نہ ہو جائے۔
لیکن یاد رکھو! آج اگر ہم کسی کے حق کے لیے عملی جدوجہد نہیں کریں گے،تو پھر ظالم کے خلاف عملی جدوجہد نہیں ہوگی ، تو کل جب خود ہم پر ظلم ہوگا، تب ہمارے لیے بھی کوئی نہیں بولے گا! یہ ناانصافی، یہ استحصال، یہ بے حسی، اگر یہی چلتارہا ، تو اس قوم کے مقدر میں وہ دن زیادہ دور نہیں جب ہر طرف غزہ جیسے ملبے کے ڈھیر ہوں گے، اور ان کے نیچے دبے بے یار و مددگار لاشے گواہی دے رہے ہوں گے کہ ہم اسی معاشرے کے لوگ تھے جو ظالم کے ہاتھ توڑنے کے لیے متحد ہو کر اجتماعی جدوجہد کرنے سے گریزاں تھے۔ہم اسی معاشرے کے بےحس لوگ تھے جو انصاف کی راہ میں یا تو رکاوٹ ڈالتے تھے یا پھر خاموش تماشائی بنے اپنے کاموں میں مصروف رہے، ہم ایسے بے حس معاشرے کا حصہ تھے جو اپنی بے حسی کے بوجھ تلے خود ہی دفن ہو گیا!اب بھی وقت ہے! اگر قوم کو جغرافیائی، نظریاتی، سیاسی، معاشی، اخلاقی اور دفاعی تباہی سے بچانا ہے، اور اس ملک کو بربادی کے دہانے سے واپس لا کر ایک ایسی عظیم الشان اسلامی ریاست میں تبدیل کرنا ہے جہاں ہر شہری کو تعلیم و تربیت، علاج معالجہ، اور عدل و انصاف جیسی بنیادی سہولیات بلا تفریق اور بلکل مفت میسر ہوں تو بے حد ضروری ہے کہ پاکستان ووٹرز فرنٹ جیسے وطن عزیز کے تیرہ کروڑ ووٹروں کے اپنی نوعیت کے پہلے اور واحد پلیٹ فارم سےاس ظالمانہ نوآبادیاتی نظام کو عوامی شمولیت سے بھرپور ایک منصفانہ اور شفاف متبادل نظام سے بدلنے کے لیے ہر پاکستانی شہری کو ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر بے لوث عملی جدوجہد کرنی ہوگی، ورنہ تاریخ ہمیں کبھی معاف نہیں کرے گی۔ان حالات میں “پاکستان ووٹرز فرنٹ”کے اس ماٹو کہ “نہ جاگو گے اور نہ جگاؤ گے تو دونوں جہانوں میں مارے جاؤ گے”۔

،

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.