ہمت اور کوشش

تحریر: خالد غورغشتی

1

کہتے ہیں کہ زندگی مُسلسل جدوجہد کا نام ہے۔ جب تک جسم میں سانس باقی ہے، انسان کو آگے بڑھنے کی لگاتار کوشش جاری رکھنی چاہیے۔ چاہے طوفان، آندھی یا سیلاب آئیں، انسان کو ہمت ہارنے کی بجائے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے اور تلخیوں کو نظر انداز کر کے ہمت کی داستان بن جانا چاہیے۔ روڑے اٹکانے والے کو اپنی محنت، لگن اور کارکردگی سے ایسا دندان شکن جواب دینا چاہیے کہ وہ مجبور ہو کر آپ کے ماتحت ہو جائیں۔

دنیا بلاشبہ پُھولوں کی سیج نہیں، بلکہ یہ کانٹوں کا جنگل ہے، جس میں جگہ جگہ خاردار جھاڑیاں اُگی ہوئی ہیں، جن سے گزر کر ہمیں منزلِ مقصود تک پہنچنا ہے۔ یہ کامیابی کتنی ہی دشوار کیوں نہ ہو، اسے پانے کے لیے ہمیں پیدا کیا گیا ہے۔ سہل پسندی کو ہر حال میں نظر انداز کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ محنت کو کسب سے جوڑ کر اللہ کی محبت میں اضافہ کرنے کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ اگر ایک انسان کی زندگی صرف سکون کی طلب اور راحت میں گزر جائے اور وہ اپنے آنے کا مقصد نہ پا سکے تو اس سے بڑی ناکامی کی دلیل کیا ہو سکتی ہے؟

بدقسمتی سے، ہمارے خطے میں گزشتہ چند برسوں میں ایسا ماحول پیدا کر دیا گیا ہے کہ کام کاج نہ کرنے والی صورت حال جگہ جگہ نظر آتی ہے۔ ہر فرد اس بات کا خواہش مند ہے کہ اسے کثیر مال و زر میسر ہو اور گھر کی دہلیز پر من پسند اشیا کی بلاتعطل فراہمی ہو۔ اسی کاہلی نے ہمیں آج تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ہے۔ ہمارے یورپی ممالک سے آنے والے اکثر نالائق اور سست افراد نہ تو یہاں جوانی میں کام کرتے ہیں اور نہ بڑھاپے میں۔ جب وہ دیارِ غیر سے اپنے دیار کی طرف پلٹتے ہیں تو ان کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے: صرف اولاد کی شادیاں کرنا یا ویلفیئر کے کاموں میں حصہ لینا۔ اب یہ لوگ چوں کہ خود محنتی نہیں ہوتے، اس لیے ان کے نزدیک کام کی اہمیت بھی نہیں ہوتی۔ ہم نے لاکھوں ایسے افراد کو دیکھا جنھوں نے ساری عمر دیارِ غیر میں کمایا اور اس دولت کو شادی، بیاہ اور برسیوں کے موقع پر پانی کی طرح بہا دیا۔

بالفرض ان کے بچے شادی شدہ ہوں تو انھوں نے زیادہ سے زیادہ یہ کرنا ہوتا ہے کہ خیراتی اداروں کو جمع پونجی دے آتے ہیں۔ جس کی وجہ سے بھکاریوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔

ہم نے ان لوگوں کو رسومات، خرافات اور خیراتی اداروں سے آگے جاتے نہیں دیکھا؛ اسی لیے یہ لوگ زیادہ سے زیادہ اپنی کوٹھی، بنگلہ اور مارکیٹ تو بنا لیتے ہیں لیکن علاقہ کے لیے ان کی خدمات، گھر سے باہر نالیوں کی صورت میں جگہ جگہ راستوں پر بہتے ہوئے گندے پانی کے نظاروں کی صورت میں نظر آتی ہیں۔

اب کیا ہوتا ہے یہ نالائق لوگ، جن کے ذہن میں اسپتال، جدید تعلیم، کارخانہ، ہنر کا ادارہ اور فیکٹری لگانے کا خیال نہیں ہوتا، وہ اردگرد کے لوگوں کو بھی ایسے دھندوں پر لگا دیتے ہیں جن کا نہ دنیا میں اور نہ آخرت میں کوئی فائدہ ہوتا ہے۔

ہم حکمرانوں کو ظالم اور بدقماش کہتے نہیں تھکتے، جب کہ آج ہمارے راتوں رات امیر ہونے والے بھائیوں کا پیسہ جو کہ غیر ضروری سرگرمیوں میں صرف ہو رہا ہے، اگر کسی صحیح جگہ مصرف کر دیا جائے تو یقیناً ہمیں کسی سے شکوہ کی گنجائش نہ رہے گی۔ ہمارا مقتدر اداروں سے بھرپور مطالبہ ہے کہ وہ یورپی ممالک میں موجود اوورسیز کے فلاحی کاموں کے لیے بھیجے گئے پیسوں کو اپنے حصار میں لے کر ان سے “باروزگار اور باہنر سکیم” کا آغاز کریں تاکہ بھکاری پن کا خاتمہ ہو اور نوجوانوں کی نظر بھکاری اداروں یا دوسروں کی جیب کی بجائے اپنی محنت، قابلیت اور قوتِ بازو پر ہو۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.