ہماری قوم مختلف گروہوں، نسلوں، فرقوں اور جماعتوں میں بٹ کر آج ریزہ ریزہ ہو چکی ہے۔ ایک گھر میں رہنے والے افراد مسلک، جماعت اور گروہ بندیوں میں بٹ کر آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ کہیں نسلی تفاخر کی وجہ سے ایک دوسرے کو کمی کمین کا لقب دے کر حقیر سمجھا جا رہا ہے تو کہیں پیشے اور کام کی وجہ سے دوریاں پیدا کی جا رہی ہیں۔ کہیں امیری غریبی کی وجہ سے رشتوں کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے تو کہیں پڑھے لکھے اور جاہل کی وجہ سے دوریاں پیدا کی جا رہی ہے۔ کہیں رشتے داروں میں برسی اور ولیمیوں کی وجہ سے تنازعات ہیں تو کہیں ماں باپ اور بیوی بچوں کی وجہ سے، غرض یہ کہ آپس کی تمام خلفشار کی راہیں ہموار کر دی گئی ہیں اور رشتوں میں ہم آہنگی نہ ہونے کے برابر ہے۔
کسی کو ذرا سی یورپ کی ہوا کیا لگی، اس نے رشتوں کو ایسے سمجھ لیا، جیسے وہ کوئی اعلی منصب پر فائز ہو اور اردگرد کے لوگ کھلونا ہوں؛ جن کے ساتھ جب چاہا کھیل لیا، جب چاہا استعمال کر کے پھینک دیا۔ حالاں کہ یورپ جانے والے اکثر لوگ کم علم اور بے ہنر ہوتے ہیں۔ یہاں وہ نہ کام روزگار کرتے ہیں نہ خاص تعلیم حاصل کی ہوتی ہے۔ شادی یا کسی ذریعہ سے وہ یورپی ممالک پہنچ جاتے ہیں تو اکثر اپنے ملک واپس آ کر رشتے داروں سے پوچھ رہے ہوتے ہیں، آج کل کیا مصروفیات ہیں اور خود موصوف کی یہاں کچھ مصروفیات نہیں ہوتی بلکہ وہاں بھی گھروں، فیکٹریوں یا زیادہ سے زیادہ دفتروں میں صفائی کا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ نہ جانے ہمارے لوگ احساس کمتری کا شکار ہو کر کیوں ان کی پہلے نوابوں کی طرح خاطر تواضع کرتے ہیں پھر پال پوس کر جب خدمت کی باری آتی ہے تو اپنے لخت جگر تک ان کے حوالے کر دیتے ہیں۔ ان یورپی ممالک میں مقیم لوگوں کی اکثریت چاپلوسی، بیماری یا انشورنش کی وجہ سے اگر گھر بنا لیں تو یہاں آ کر رشتے داروں کے گھر بنانے کی بجائے شادیوں اور برسیوں پر کروڑوں روپے لگا کر ان کے لاکھوں ارمانوں کو توڑ رہے ہوتے ہیں کیوں کہ جس نے یہ رسومات نبھائی ہوتی ہے، اسے بدلے میں ایسی رسومات کرنی ہوتی ہیں، اگر وہ ایسا نہ کر سکے تو سب ان سے رشتے توڑنے کا عندیہ دیتے ہیں۔ یوں وہ بے بس و لاچار ہو کر بلکہ بسا اوقات قرضہ مانگ کر یہ سرگرمیاں انجام دیتے ہیں۔
یورپ جانے سے قبل ہمارے یہ بھائی اکثر اپنا گھر بلکہ اپنا آپ بھی سنبھالنے کے قابل نہیں ہوتے، جوں ہی وہ یورپ کی سیر کر کے آتے ہیں ان کے نخرے ساتویں آسمان کو چھوتے ہیں۔ اب وہ بندے کو بندہ نہیں سمجھتے ہیں۔ ان کی سوچ مثل جواری بن جاتی ہے، جو ان کی چاپلوسی کرے، ان کی خدمت کرے تو وہ اس کے دیوانے ہو جاتے ہیں اور جس کے پاس کھانے کو دانے نہ ہوں، یہ اسے حقیر سمجھ کر نفرت بھری نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ دیگر کئی رسومات و خرافات کے ساتھ ساتھ ہمارا معاشرہ یورپی ممالک سے آئے رشتوں داروں کی وجہ سے بھی نسل در نسل تقسیم کاریوں کا شکار ہو رہا ہے۔ یہ لوگ اکثر نہ خود کچھ قابل قدر تعلیم و ہنر سے مستفید ہوتے ہیں نہ ہی دوسروں کو ہونے دیتے ہیں۔ اس لیے یہ یہاں آ کر تعلیمی ادارے، فیکٹریاں یا کوئی ہسپتال وغیرہ بنانے کی بجائے، نئے نئے فیشن، بے جا رسومات اور اسراف کے عجیب و غریب طریقے اپنا کر اپنوں کو مزید پستی میں دھکیل رہے ہوتے ہیں۔
سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی، یہ کارکناں کے حقوق کی بات کرنے کی جائے، اپنی جماعت کو ترقی دینے اور ان میں افراد شامل کرنے کی بات کرتی ہیں۔ اس جدید ذرائع و ابلاغ کے دور میں جہاں ہر چیز واضح ہو چکی ہے، کھرے کھوٹے کا فرق آسان ہو چکا، اس دور میں بھی ہمارے لوگ شعور سے عاری اپنے اپنے مذہبی اور سیاسی جماعتوں کے منشور اٹھائے، ان کے نعرے بلند کرنے میں مصروف ہیں۔ جن کا ماننا ہوتا ہے کہ ہماری جماعت حق پر ہے، باقی سب دھوکے باز ہیں اور شب و روز اس پر بحثیں جاری ہوتی ہیں، چوکوں، چوراہوں، ہوٹلوں، بازاروں اور اب سوشل میڈیا پر یہ فضول مباحثے کرتے نہیں تھکتے۔
پون صدی سے زائد بیت چکی لیکن ہمارے عوام کو یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ان کو جماعت کی گنتی بڑھانے کے لیے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، ورنہ ان کی اوقات ان مذہبی و سیاسی رہنماؤں کے پاس دوٹکے کی نہیں ہوتی۔ اگر ان سے یہ سوال کر لیا جائے کہ آپ جن کے ساتھ جینے مرنے کی بات کر رہے ہیں وہ قائدین آپ کو جانتے بھی ہیں یا نہیں تو اکثریت کا جواب، نہیں میں ہو گا۔ آخر ہم کب تک ان سیاسی و مذہبی جماعتوں کے خوساختہ قائدین کے لیے رشتے کو توڑتے رہیں گے؟ آپس میں نفرتیں پھیلاتے رہیں گے۔
ہمارا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ہم ہر کام اور پیشے سے نقص نکالتے ہیں۔ کمہار ہے تو مٹی سے نقص نکالیں گے، سُنار ہے تو سونے کے کام سے نقص نکالیں گے، حجام ہے تو دیگر ہم پیشہ کے کام سے نقص نکالیں گے، موچی ہے تو جوتے کے کاموں سے نقص نکالے گے۔ اگر کسی نے اپنا روزگار شروع کیا تو لوگ اس کا تمسخر اڑائیں گے۔ ہم بیس ہزار کے لیے دفتروں میں کام کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں لیکن پچاس ہزار بھی اپنے کام میں بن رہا ہو تو ہم شاد نہیں۔ خدارا خود سے احساس کمتری کو نکالیں اور اپنے کام سے مخلص ہو کر اپنے کاروبار کو ترقی کی راہوں پر گامزن کریں اسی میں ہم سب کی بھلائی اور ترقی ہے۔