عدالتی فیصلے کا ابہام دور کرنے کیلئے چیف جسٹس کا اقدام

14

خدمات ۔۔۔۔۔۔چودھری مخدوم حسین

عدلیہ کو سیاست میں لانے کی روایت بہت پرانی ہی ،جب بھی عدالت سے کوئی بڑا فیصلہ آتا ہے دو طرح کے جملے فوری سننے کو ملتے ہیں۔ ایک یہ کہ نظریہ ضرورت زندہ ہو گیا اور دوسرا یہ کہ نظریہ ضرورت دفن ہو گیا۔تاہم عدالتی نظام میں تاحال اصلاحات کی گنجائش رہی ہے مگر اس پر کسی بھی جمہوری حکومت نے کوئی ٹھوس کام نہیں کیا ،یہ بحث الگ سے چھڑ گئی کہ مقننہ کی قانون سازی اہم ہے یا عدالت کی جانب سے کی جانے والی تشریح اہم ہے ۔ان حالات میں اداروں کی بالادستی کے بارے میں بھی میں ابہام دور نہیں کیا جاسکا ،سیاستدانوں نے مرضی کے ججز کی تعیناتی سے ڈنگ ڈپائو پالیسیاں رائج کرکے اپنا کام تو چلالیا مگر پاکستان کے نظام عدل کے نقائص دور کرنے والا کوئی میکنزم تیار نہیں ہوسکا ۔پاکستان کے قیام کی تاریخ پر نظر ڈالیں توپاکستان کے قیام سے پہلے لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 26 جولائی 1947 کو پاکستان کی نئی دستور ساز اسمبلی کا حکم نامہ جاری کیا جس کی رو سے طے پایا کہ 1945 کے انتخابات میں مسلمان حلقوں اور وہ علاقے جو پاکستان کا حصہ بننے جا رہے ہیں، وہاں سے کامیاب ہونے والے ارکان ہی پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے اراکین تصور ہوں گے۔یہ طے ہوا کہ یہی دستور ساز اسمبلی پاکستان کا نیا آئین بنائے گی اور جب تک یہ آئین نہیں بن جاتا 1935 کا ایکٹ ہی پاکستان کا عارضی آئین تصور ہو گا۔یوں قائم ہونے والی اسمبلی کے کل اراکین کی تعداد 69 تھی جن میں سے 44 کا تعلق مشرقی پاکستان سے تھا۔ اس کا افتتاحی اجلاس 10 اگست کو سندھ اسمبلی کی عمارت میں ہوا تھا جس میں جوگندر ناتھ منڈل کو اسمبلی کا عارضی صدر منتخب کیا گیا، جبکہ اگلے روز قائداعظم کو متفقہ طور پر صدر منتخب کر لیا گیا جنہوں نے منتخب ہونے کے بعد افتتاحی خطاب کیا جسے آج بھی تاریخی حیثیت حاصل ہے۔قائداعظم محمد علی جناح نے اداروں کی ڈومین کا معاملہ کھل کر بیان کردیا تھا مگر بدقسمتی سے وہ اپنے فرمودات کو عملی شکل نہ دے سکے کیونکہ انکی زندگی نے وفا نہیں کی ۔بعد میں آنے والوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے ویژن سے یکسر انحراف کرتے ہوئے من مانیوں کا راستہ چن لیا اور قانون و آئین کی بالادستی کو پس پشت ڈال دیا گیا ،اس طرح ملک میں جب پہلی بار جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا تو چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس منیر کی جانب سے نظریہ ضرورت سامنے آیا جس کے تحت مارشل لاء کو جائز قرار دیکر عدلیہ کی جانب سے بھی جمہوریت پر شب خون مارتے کی بنیاد رکھی گئی۔پھر یہ سلسلہ آج تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑ سکا ،2جولائی کو سپریم کورٹ کے اکثریتی فیصلے میں ایک سیاسی جماعت کی حمایت کا تاثر کھل کر سامنے آیا جب اسے مانگے بغیر ہی مخصوص نشستوں سے نواز دیا گیا ،اس حوالے سے پارلیمنٹ اور عدلیہ میں ٹھن گئی اور حالات دن بدن گھمبیر ہوتے چلے گئے ،الیکشن کمیشن کو پارلیمان نے اس فیصلے پر عملدرآمد سے روکا تو سپریم کورٹ کی جانب سے اس پر عملدرآمد کرنے کی ہدایت کردی ان حالات میں اب جاکرچیف جسٹس آف پاکستان مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ایک انتظامی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے عدالت کے’’مخصوص نشستوں سے متعلق مقدمہ‘‘ کے 2 جولائی کے مختصر فیصلہ سے متعلق ابہام کی درستگی کیلئے دائر کی گئی الیکشن کمیشن اور پی ٹی آئی کی متفرق درخواستوں کی14 ستمبر کو،کی جانب والی ان چیمبر سماعت سے متعلق آٹھ اکثریتی ججوں کی وضاحت پرمبنی حکم نامہ (آرڈر) کے اجراء سے متعلق ڈپٹی رجسٹرار (جوڈیشل) کے (اسی روز ہی قلمبند کئے جانے والے) نوٹ کی روشنی میں9سوالات اٹھا دیئے ہیں۔ (اول) الیکشن کمیشن اورپاکستان تحریک انصاف نے عدالت کے 12 جولائی کے مختصر فیصلہ سے متعلق ابہام کی درستگی کیلئے وضاحت کی درخواستیں کب دائر کی تھیں،(دوئم) پی ٹی آئی اور الیکشن کمیشن کی یہ متفرق درخواستیں سپریم کورٹ (پریکٹس پروسیجر) ایکٹ 2023کے تحت قائم تین رکنی کمیٹی کو غور کیلئے کیوں نہیں بھیجی گئیں، (سوئم) متفرق درخواستیں کاز لسٹ پر شائع کئے بغیر ہی سماعت کیلئے کیسے مقرر ہوگئیں؟ (چہارم )کیا رجسٹرار آفس نے متعلقہ فریقین مقدمہ اور اٹارنی جنرل کو اس حوالے سے نوٹس جاری کیے تھے؟(پنجم ) کس کمرہ عدالت یا کس جج کے چیمبر میں ان درخواستوں کی سماعت ہوئی تھی؟ (ششم ) متفر ق درخواستوں کی سماعت کے بعد انکے فیصلہ کے اجراء کیلئے کاز لسٹ کیوں جاری نہیں کی گئی تھی؟(ہفتم ) حکم نامہ سنانے کیلئے درخواستوں کو کسی کمرہ عدالت میں مقرر کیوں نہیں کیا گیا تھا؟(ہشتم )فیصلے کی اصلی فائل اوران چیمبر سماعت کا حکم نامہ رجسٹرار آفس میں جمع کروائے بغیر ہی اس حکم نامہ کو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پرکیسے اپ لوڈ کروا دیا گیا؟(نہم )حکم نامہ کو سپریم کورٹ کی آفیشل ویب سائٹ پر اپ لوڈ کرنے کا حکم کس؟نے دیاتھا۔ان حالات میں اب کم ازکم اس فیصلے سے پیدا ہونے والا ابہام دور کرنے کا راستہ تو کھلا ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.