بھکاریوں پر پابندی لگائی جائے

223

تحریر: خالد غورغشتی

ملک بھر میں سڑکوں اور چوراہوں پر پیشہ ور بھکاریوں کی بھرمار ہے۔ ہر طرف بزرگ، بچے اٹھائے خواتین اور معذور مانگتے نظر آتے ہیں۔ شہر میں ایک بھکاری مختلف انداز اپنا کر روزانہ 14 سو روپے سے 2 ہزار روپے تک لوگوں کی جیبوں سے اچک لیتا ہے۔جگہ جگہ لمبی لمبی کی قطاریں اور شب و روز ایک ہی کام مانگنا ، مانگنا اور بس مانگنا۔ ویسے ان احمقوں سے کوئی پوچھے تم ان کو پیسے ہی کیوں دیتے ہو؟ کیا آپ کو علم نہیں، ایک بھکاری ایک ہزار سماجی مسائل کو جنم دیتا ہے۔ اگر ان بھکاریوں کو ہم یوں ہی پیسے دیتے رہے تو اعداد و شمار بتاتے ہیں، کچھ ہی عرصے تک آدھا ملک بھکاری بن جائے گا۔ ان بھکاریوں کی روز بہ روز جدت آتی چلی جا رہی ہے۔ آپ فیملی کے ہمراہ کھانا کھانے جائیں یا شاپنگ پر، پارک میں ہوں یا کسی اور مقام پر یہ گداگر پیچھا نہیں چھوڑتے۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک بھر میں 3 کروڑ 80 لاکھ بھکاری ہیں، لاہور میں ایک بھکاری مختلف حیلوں بہانوں سے روزانہ 1400 روپے لوگوں کی جیبوں سے ہتھیا لیتا ہے۔ پہلے پہلے ٹانگ، بازو اور آنکھ سے محرومی کا بہانہ کر کے مانگنا جاتا تھا اب بازو دیکھا کر ٹانگیں پھیلا کر اور آنکھیں گھما کر بدمعاشی سے مانگا جاتا ہے۔ جو نہ دے اس کی جیب گھر تک بہ مشکل ہی سلامت جاتی ہے۔ کچھ بھکاریوں نے تو اپنا مسلسل ایک ٹھکانہ بنایا ہوا ہے کہ جدھر لوگ زیادہ آتے بھکاریوں کو بھیڑ بھی اُس ہی جگہ زیادہ پائی جاتی ہے اور جب تک ہاتھ میں کچھ نہ تھما دو تب تک پیچھا نہیں چھوڑا جاتا۔ کئی دفعہ تو بھکاری چھینا جھپٹی میں بھی لوگوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔

اور صرف یہی نہیں آج کل خواتین نے بھی یہ دھندا خُوب شروع کیا ہوا ہے۔ پہلے یہ گھر گھر جا کر مانگتی تھی اب واٹس ایپ اور فیس بک گروپس بنا کر معزوروں، بیماریوں، تنگ دستوں، لاچاروں اور بے روزگاروں کے نام پر خوب لوٹتی ہیں۔ چوں کہ ان کی کوئی روک تھام نہیں، اس لیے یہ با آسانی سوشل میڈیا کے ذریعے کسی کو ہسپتال پہنچا کر، کسی کو بھوک سے مار کر، کسی کی بے روزگاری کا اشتہار لگا کر لوٹ لیتی ہیں۔ اور معصوم لوگ جو اپنے خون پسینے کی کمائی ان کو دے دیتے ہیں وہ زیادہ ان عورتوں کی لپیٹ میں آتے ہیں کیوں کہ آج کل عورتوں نے اپنا ایک ہتھیار بنا لیا ہے، رونا دھونا اور پیسے بٹورنا۔

بعض شہروں میں تو گداگر مافیاز کے بڑے بڑے منظم گروپ کام کر رہے ہیں۔ جو تین ہزار سے پانچ ہزار تک دیہاڑی نہ لگا لیں ان کی جان نہیں چھوٹتی۔ یہ مافیاز بچوں سے لے کر عورتوں اور بزرگوں تک کو استعمال کرتے ہیں۔

ہماری بدقسمتی کی سب سے وجہ یہ ہے کہ مذہبی طبقے کے لوگ بھی مدرسے ، مسجد اور کسی بھی دینی ادارے کے نام زکوتہ، خیرات، صدقات، وظیفے، نزرانے، پیری مریدی اور دین کی اشاعت کے نام پر لوگوں سے مانگتے ہیں اور یہ دھندا اس قدر وسیع ہے کہ آج اس دھندے کی لپیٹ میں اکثر مذہبی طبقہ آ چکا ہے۔ اس کی روک تھام کے لیے حضراتِ علما و مشائخ عمل میں آئیں۔

میں یہ نہیں کہتا سب لوگ بھکاری ہیں، کچھ ہوتے ہیں؛ جو واقعی ضرورت مند ہوتے ہیں لیکن ان سفید پوش لوگوں کا حق یہ مافیا گروپ کھا جاتے ہیں۔ جن کو اصل امداد اور مال پہنچنا چاہیے، اُن تک پہنچ ہی نہیں پاتا اور یوں سفید پوش خالی ہاتھ رہ جاتے ہیں۔

قارئین کرام! کئی دیگر قومی مسائل کی طرح یہ بھی اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ آج پوری قوم اس کی لپیٹ میں آ چکی ہے۔ دنیا ہمیں بھکاری قوم کہنے لگی ہے۔ کیوں کہ سعودی عرب، دبئی، یورپ اور انگلینڈ، سمیت دیگر ممالک سے ہماری بھائیوں کی ایسی ایسی بھیک مانگنے کی ویڈیو وائرل ہو چکی ہے کہ ہمارا سر شرم سے جُھک جاتا ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ گداگری کے خاتمے کے لیے ایسے سخت قانون بنائے جائیں کہ جو بھی اس قبیح فعل میں مبتلا ہو اُسے سخت سے سخت سزا اور زیادہ سے زیادہ جرمانہ اور قید ہو۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.