عادتوں کی غلامی

46

احساس  کے انداز

تحریر ؛۔ جاویدایازخان

یہ ستر کی دھائی کی بات ہے جب ہم میٹرک کی تیاری میں مصروف تھے ۔ہمارے استاد شاہ محمد مرحوم دن رات پڑھائی کراتے
 امتحان کی تیاری کی باعث ہمیں فٹ بال تک کھیلنے کی اجازت نہ تھی ۔لیکن ہم بھی بھلا کہاں رکنے والے تھے ۔چند دوستوں کے ہمراہ  ایک رات کو آخری شو میں فلم دیکھنے پرنس سینما چلے گئے ۔
استاد منیر ہمراہ  تھے وقفے (ہاف ٹائم ) کے دوران  باہر نکلے تو  انہوں نے  ایک ایک سگریٹ سلگا کر سب کو دیا  اور ہم نے بھی شوخی میں سگریٹ کے کش لینے شروع کردئیے ۔
ہمارے استاد شاہ محمد مرحوم کی سینما کے مالک میر صاحب مرحوم  سے بڑی دوستی ہوا کرتی تھی ۔وہ ان کے پاس بیٹھے گپ شپ کر رہے تھے،ہماری ان پر اور ان کی ہم پر نظر پڑی تو ہماری تو جان ہی نکل گئی  اس زمانے میں بطور استاد ان کی بڑی دہشت ہو ا کرتی تھی ۔
لیکن انہوں نے اپنا چہرہ  دوسری جانب کر لیا تاکہ محسوس نہ ہو کہ وہ ہمیں دیکھ چکے ہیں۔چپکے سے فلم ادھوری چھوڑ کر کھسک جانے میں عافیت سمجھی ۔
مگر پریشان تھے کہ صبح کیا ہو  گا  ؟اگلے دن اسکول پہنچے تو سب کچھ نارمل تھا ۔لگتا یہی تھا کہ انہوں نے ہمیں نہیں دیکھا تھا ۔
دن بھر کلاس کے بعد جب چھٹی کرکے جانے لگے تو انہوں نے مجھے اور سعید چشتی کو اپنے دفتر میں بلا لیا ۔ڈرتے ڈرتے ان کے سامنے پہنچے تو خوف اور پریشانی  سے بولا بھی نہ جاتا تھا ۔
ہمیں دیکھ کر وہ مسکراۓ اور پوچھا رات کہاں تھے ؟ سعید چشتی نے مجھ سے پہلے ہی کہ دیا کہ سر ! رات دوستوں کے ساتھ فلم دیکھنے گئے تھے ۔پھر وہ بولے صرف فلم دیکھی تھی یا اور بھی کچھ کیا تھا ؟
 ہم نے سچ بولنے میں ہی عافیت سمجھی اور صاف صاف بتا دیا کہ وقفہ کے دوران سگریٹ بھی پیا  اور پان بھی کھایا تھا ۔تو کہنے لگے مجھے تمہارے سچ بولنے سے بہت خوشی ہوئی ہے ۔پھر کہنے لگے تم میرے اسکول کے قابل اور ذہین ترین بچے ہو   اس لیے تمہیں معاف کرتا ہوں ۔
ہم نے کہا سر ! آئندہ ایسا نہیں ہوگا ۔تو کہنے لگے جاوید  ! میں تمہیں  فلم دیکھنے یا  پان کھانے اور سگریٹ پینے سے روکنا نہیں چاہتا ۔آپ کی عمر میں  تجسس کی باعث یہ حرکتیں سرزد ہو جاتی ہیں ۔جوانی کا بےلگام گھوڑا قابو کرنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے ۔
خواہشات اور تجسس کا  بے ہنگم طوفان روکے نہیں رکتا  اور انسان کو بےبس کردیتا ہے ۔چمکتی آگ کو دیکھ بچہ ایک دفعہ ضرور اسے چھونے کی کوشش  کرتا ہے ۔ بس میری صرف ایک ہدایت  اور نصیحت ہے کہ کسی بھی بری حرکت کو عادت یا  اپنی کمزوری نہ بنا لینا ۔
جب کسی عادت کو اپنی کمزوری محسوس کرنے لگو تو فورا” چھوڑ دو   اس سے پہلے کہ ان کو چھوڑنا ممکن نہ رہے ۔کیونکہ منفی عادتیں انسان کو جکڑ تی چلی جاتی ہیں  اور بےبس کر دیتی ہیں۔
منفی عادتیں سوچ اور زندگی کے متعلق ہمارے یہ منفی  رویے  یکدم نہیں بدلتے بلکہ رفتہ رفتہ زندگی میں  خاموشی سے مسلسل داخل ہوتے رہتے ہیں اور پھر ہمارے جسم اور زندگی کی ضرورت بن جاتے ہیں ۔
تب  ہم ان سے چھٹکارا حاصل کرنا بھی چاہیں تو ناممکن تو نہیں مشکل ضرور ہو جاتا ہے ۔ یاد رکھو کسی بھی عادت یا سوچ کو اپنی کمزوری نہ بننے دینا ۔
منفی عادتیں انسان کو اپنا غلام بنا لیتی ہیں  اور پھر عادتوں کا  وہ غلام ہر منفی حکم کی تعمیل کرنا اپنا فرض سمجھنے لگتا ہے ۔
عادتوں کی غلامی انسانی غلامی سے بھی بدتر ہوتی ہے ۔منفی عادتیں اکثر نشے میں بدل جاتی ہیں ہم نے پوچھا سر  ! پھر تو یہ نشہ  کیا ہوتا ہے ؟ بھلا عادت اور نشے میں فرق کیا ہے ؟
تو کہنے لگے کہ ہر وہ منفی حرکت ،فعل اور کام جس کے بارے میں معلوم بھی ہو کہ یہ غلط  اور برائی  ہے  پھر بھی ایسا کرنے کو دل کرےاور اس برائی کو غلظ سمجھ کر بھی کرتے رہنا عادت ہوتی ہے لیکن اگر یہی غلط کام اور عادت آپکو ذہنی و جسمانی  سکون دینے لگے  اور نہ کرنے سے بےچینی بڑھنے لگے اور اس کے بغیر رہا نہ جاسکے تو یہ نشہ کہلاتا ہے ۔
ہمیشہ غیر محسوس طور پر کیا گیا ایک معمولی منفی شغل عادت اور  یہی عادت  بڑھ کر نشے میں بدل جاتی ے ۔بری اور منفی عادتوں کی غلامی سے بچتے رہو  کیونکہ غلام کی کوئی زندگی نہیں ہوتی ۔عادتیں گھر ،خاندان ،گلی محلوں ،ہمسایوں ،اسکول ،دوستوں ،اور سوسائٹی سے جنم لیتی ہیں ۔
ہمارا ماحول اور معاشرہ اس میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔کچھ اچھی یا بری   عادتیں  ہمیں وارثت میں بھی ملتی ہیں اور ہمارے خون میں شامل ہو تی ہیں ۔
جنہیں انسانی فطرت یا جبلت بھی کہا جاتا ہے ۔جن سےبچنا ممکن نہیں ہوتا مثلا” کچھ لوگ پیدائشی  بہادر   اور دلیر ہوتے ہیں اور کچھ بزدل اور گھبرا جانے والے  ہوتے ہیں  ۔
کچھ شاہ خرچ اور کچھ کنجوس ہوتے ہیں ۔اسی لیے کہتے ہیں کہ عادتیں نسلوں کا پتہ دیتی ہیں ۔
شیر بڑا ظالم جانور ہے لیکن اگر وہ پالتو ہو تو اسکی بنیادی عادتوں میں تبدیلی آجاتی ہے اور وہ سرکس میں انسان کے اشاروں پر ناچتا نظر آتا ہے  اور اسی سرکس میں شیر اور بکری کو اکھٹے بیٹھے دیکھا  جا سکتا ہے ۔
لیکن اس کی گوشت خوری کی جبلت وہی رہتی ہے اور بکری گھانس ہی کھاتی ہے ۔
میں نے بلی کو مرغیوں کی حفاظت کرتے اور چوہوں کے ساتھ کھیلتے دیکھا ہے۔ جبکہ چوہے تو بلی کی غذا ہوتے ہیں ۔دراصل ان کی  صرف عادتیں بدل جاتی ہیں  گو فطرتاور طاقت  وہی رہتی ہے ۔
یہ سب اپنی عادتوں کے غلام ہوکر اپنی حیثیت اور صلاحیت سے محروم ہو جاتے ہیں ۔عادتیں شیروں کو بکری اور بلی کو چوہا بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں ۔

کہتے ہیں کہ عادت کے لغوی معنی کسی کام کو تکرار کے ساتھ بار بار کرنے کے ہیں یعنی ایسا کام جو ہم ہر روز بار بار کرتے ہیں  اور اتنی مرتبہ کرتے ہیں کہ وہ ہماری شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے ۔
ماہرین نفسیات کا خیال ہے کہ ہمارے زیادہ تر رویے عادت سے تشکیل پاتے ہیں ۔ایک تحقیق کے مطابق ہم دن میں چالیس فیصد کام اپنی مرضی سے نہیں بلکہ اپنی عادت کے مطابق کرتے ہیں ۔
تحقیق کے مطابق عادتیں ہر کامیابی اور ناکامی کی کنجی ہوتی ہیں  اور جن لوگوں میں عادتیں اچھی ہوتی ہیں ان میں ترقی کا تناسب سب سے زیادہ ہوتا ہے
جبکہ منفی عادتوں کے حامل لوگ دن بدن تنزلی کا شکار ہوتے چلے جاتے ہیں ۔اسی لیے کہتے ہیں کہ عادت بدلو زندگی خود بخود بدل جاۓ گی۔ ابتدا میں عادت ایک باریک سے دھاگے کی مانند ہوتی ہے۔
جو دکھائی نہیں دیتا  تاہم تکرار سے وہ دھاگہ دن بدن موٹا ہوتا چلا جاتا ہے اور ایک دن  مضبوط رسی کی شکل اختیار کر لیتا ہے ۔
دراصل کسی عمل کو بار بار دوہرانا اپنی عادت کو مضبوط کرنا ہوتا ہے اور ہم اپنی عادتوں کے غلام ہو کر وہ  ہی بن جاتے ہیں جو ہماری عادتیں چاہتی ہیں ۔

آج ہم بحیثیت قوم ایک ایسی  منفی عادت کے غلام ہو چکے ہیں جو کسی نشے سے کم نہیں ہے ۔ہماری پوری قوم جس میں معصوم بچے ،نوجوان ،بوڑھے مرد وخواتین  سب شامل ہیں ۔
جی ہاں ! یہ موبائیل فون کی عادت ہے جس نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے ۔
ہر شخص موبائل فون  کے بغیر چند لمحے بھی گزار نہیں سکتا ۔یہ جانتے ہوے بھی کہ اس کا استعمال انسانی صحت کے لیے کسی بھی دوسرے نشے سے زیادہ مضر ہوتا ہے اس کے بغیر زندگی کا تصور ہی نہیں ہوتا ۔
ہم جان بوجھ کر اپنے بچوں کو اس کا عادی بنا رہے ہیں ۔ذرا سا موبائل فون ادھر اُ دھر ہوجاۓ یا چارجنگ ختم ہو جاےُ تو بے چینی بڑھ جاتی ہے اور ہم پاگلوں کی طرح اسے ڈھونڈھنے لگتے ہیں ۔
ملک کا ہرہر فرد اس عادت کا اسقدر غلام ہو چکا ہے کہ گھروں میں اور گھروں سے باہر سواۓ اس کے کوئی بات ہی نہیں کرتا ۔بچوں کو پیدا ہوتے ہی بہلانے کے لیے دے دیا جاتا ہے ۔
جوانواں کی ضرورت اور بوڑھوں کی تنہائی دور کرنے کا بھی یہ واحد ذریعہ بن گیا ہے ۔موبائل فوں کی یہ غلامی ہمیں کدھر لے جارہی ہے ؟
یہ ایک ایسا المیہ ہے جس سے بچنے کی فی الحال  کوئی صورتحال نظر نہیں آتی ؟ ذرا سوچیں تھوڑا نہیں بہت زیادہ سوچیں ایسا نہ ہو کہ وقت ہمارے ہاتھوں سے نکل جاے ٔ ۔

 بری اور منفی عادتوں سے چھٹکارا صرف اچھی عادتیں اختیار کرنے سے ہی ممکن ہوتا ہے ۔
موبائل اور دیگر منفی عادتوں کی غلامی سے محفوظ رہنے کے لیے  اچھی عادات کو فروغ دینا ضروری  ہوتا ہے مثلا” روز صبح جلد بیداری  یعنی ہر دن نیا دن اور نئی امید کے ساتھ آغاز ،خود کو متحرک رکھنا ،اپنی جسمانی اور ذہنی صحت کا خیال رکھنا ،مطالعہ کی عادت اور باخبر رہنا ،روزمرہ معمولات کا تعین ،عام افراد جیسا طرز زندگی ،اپنی خواہشات اور خوابوں کی تکمیل کی خواہش ،جائز آمدنی کے ذرائع ،فلاحی اور سوشل سرگرمیاں ،ہار نہ ماننا ،مثبت سوچ اور مثبت صحبت کا اختیار کرنا،دوسروں سے مل جل کر کام کرنے کی عادت اپنانا  ،اپنے آپ یعنی اپنی شخصیت  کو اپ گریڈ اور نمائیاں کرنا،لوگوں کی بات سننے اور سمجھنے کا عادی ہونا ،درست مشورہ دینا ،جھوٹ اور غیبت سے دوری ،کسی کے معاملات میں دخل اندازی سے گریز ،دوسروں کے غم اور خوشی میں شرکت ، بلا کسی لالچ دوسروں کی مدد ،روزمرہ زندگی میں معذرت اور شکریہ کا رویہ اور طرز عمل اپنانا ،خود پر یقین رکھنا ،ہمیشہ اپنے مقصد کو سامنے رکھنا ،دوسروں کی درست بات کو ماننا  ضروری ہے یہی طریقہ کار آپکو بےشمار منفی عادتوں سے دور رکھ سکتا ہے ۔یاد رکھیں برا ئی سے بچنا دراصل بڑی نیکی ہوتی  ہے ۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.