دوست سے جدائی کا ایک سال

30

تحریر ؛۔ جاویدایازخان
کہتے ہیں کہ دوست فرشتے نہیں ہوتے ان کا اچھا انسان ہونا ہی بڑی نعمت ہوتا ہے اور نعمت سے محرومی بڑا المیہ ہوتا ہے ۔ ایک مخلص اور ہردلعزیز دوست کو جدا ہوے ایک سال بیت گیا اس کی جدائی نے یوں تو پورےسال ہی آنکھوں کو نم اور دل کو مغموم رکھا ۔ مگر اس پہلی برسی کے موقع پر جب اسکی یادوں کے زخم جو وقت کے ساتھ ساتھ کچھ بھرنے لگے تھے پھر سے آغوش کشا ہو گئے ۔ایک تو اس کی پہلی برسی اورپھر وہ بھی عید الفطر کے خوشی کے موقع پر خوشی کی رت میں غم کا یہ موسم عجیب کیفیت سے دوچار کر گیا ہے ۔کچھ دوستوں کی جدائی کا حادثہ اور بچھڑنے کا غم بسا اوقات تو انسان کو ذہنی طور پر مفلوج اور اپاہج سا ہی کردیتا ہے ۔ہماری زندگی میں سے کسی کا چلے جانا شاید اتنا تکلیف دہ نہیں ہوتا جتنا اس کے چلے جانے کے بعد بھی ہمارے دل اور ذہن میں اس کی یاد اور محبت کا ٹھہر جانا اذیت ناک ہوتا ہے ۔کہتے ہیں وقت ہو ،انسان ہو ،یا کوئی بھی محبت بھرا رشتہ ہو کھونے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے کہ کتنا قیمتی اور اہم تھا وہ جو چلا گیا وہ جو ہمیں چھوڑ گیا وہ جو جدا ہو گیا ؟ ۔پھر ایک ایسے دوست کا جدا ہونا تو سب سے الگ تھلگ اور منفرد ہوتا ہے جو پوری زندگی آپکی تنہائیوں کا ساتھی اور راز دار رہا ہو ،جو ہر مشکل وقت میں ساتھ کھڑا نظر آتا ہو ،جو ہر خوشی کے لمحے کو ساتھ گزارے ،جو دکھ سکھ میں حوصلہ اور ہمت دینے کا جذبہ رکھتا ہو ۔جی ہاں ! میری اور بےشمار دوسروں کی یادوں میں آج بھی بسنے والا میرا دوست شیخ صبح صادق تھا جو پچھلے سال یہ عارضی دنیا چھوڑ کر ہ دائمی حیات کی راہوں میں کہیں کھڑا وہاں ہمار ا منتظر ہے ؟ ۔یہ دوستی کا بندھن بھی عجیب ہی ہوتا ہے یہ بندھتا بھی مشکل سے ہے اور ٹوٹتا بھی بڑی تکلیف سے ہے ۔زندگی میں جب ہم دوست کبھی مل بیٹھ جاتے تھے تو ہماری باتیں ختم نہیں ہوتی تھیں اور اب جب بچھڑے ہیں تو یادیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتی ہیں ۔کسی ایسے دوست کی برسی پر اس سے جدائی کا دکھ لکھنے کو الفاظ تلاش کرنا خاصا مشکل اور تکلیف دہ ہوتا ہے ۔بےشک موت ایک اٹل حقیقت ہے جس سے انکار ممکن نہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ مرنے والے کے ساتھ کوئی مر نہیں جاتا لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مرنے والے یادوں میں ہر لمحہ زندہ رہتے ہیں ۔کسی پیارے دوست کی موت ایسا سانحہ ہوتی ہے کہ جس کا نوحہ لکھتے ہوے ٔ خود بھی مرنا پڑتا ہے ۔کہتے ہیں کہ ہر بیماری ،تکلیف،درد اور دکھ کی تشخیص کے ساتھ اس کی پیمائش کا پیمانہ موجود ہوتا ہے لیکن اب تک جدائی کادرد مانپنے کا کوئی آلہ ایجاد نہیں ہوسکا ۔یہ بھی سچ ہے کہ مرنےوالا تو ایک دفعہ مرتا ہےلیکن جینے والے تو مرنے والوں کی یاد میں بار بار مرتے ہیں ۔ انسان جسمانی اذیت اور تکلیف کا درد تو سہہ لیتا ہے لیکن جب جدائی کے صدمے سے روح ہی گھائل ہوجاۓ تو خاموشیوںکا راج شروع ہو جاتا ہے اور کچھ کہنا یا لکھنا مشکل ہو جاتا ہے ۔بےشک ” خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں “!
دوستی کیا ہے اسے سب پہ عیاں کرتے ہیں
آو ُ کچھ خوبیاں یاروں کی بیاں کرتے ہیں
کسی دوست کو اسکی وفات کے بعد خراج تحسین پیش کرنے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے ساتھے گزرے ٔ ہوے قیمتی اور یادگار لمحوں کو سوچ کر اس کی عظمت ،صلاحیت ،محنت ،محبت اور بڑائی کا اعتراف کریں اور ٔ اسکی اچھائیوں اور بھلائیوں کی ہر بات ایسے کی جاے ٔ کہ گویا وہ آج بھی ہم سے محو گفتگو ہے ۔کچھ دوست آپکی زندگی میں اتنے بھرپور ہوتے ہیں کہ ان سے بچھڑنے کا تصور کرنا بھی بڑا مشکل ہوتا ہے اور بچھڑ کر ان کی باتوں ،یادوں کے چراغ جلاے رکھنا اور جدائی کے درد کا روگ پالے رکھنا بھی کس قدر اذیت ناک ہوتا ہے اس کا ندازہ ممکن ہو ہی نہیں سکتا ؟۔شیخ صبح صادق اپنی ذات میں اک انجمن تھا دوستوں کی محفلوں کو سجانا ،دوستوں سے رشتوں نبھانا اس پر شاید ختم تھا ۔دوستوں سے محبتوں اور رفاقتوں کے سفر میں ان کا حق خوب ادا کرنا اس کا فن تھا ۔وہ واحد دوست تھا جو میری تکلیف پر آنسوں سے روتا اور شاید ایسا دوست جسے کبھی دکھ یا تکلیف بتانے کی نوبت ہی نہ آتی ۔اس کے غصے میں چھپا پیاردل موہ لیتا تھا ۔ہم نے بےشمار سفر ساتھ کئے کبھی پہاڑوں کے پرفضا ء اور ٹھندے ٔمقام پر تو کبھی ریت کے تپتے صحراوں اور کبھی دیار غیر کی سڑکوں پر اس کا اپنا ہی فلسفہ زندگی ہوتا تھا اپنی ہی الگ راۓ ہوتی تھی مگر ہمیشہ میرے سامنے ہتھیار ڈال دیتا تھا ۔حرم کعبہ ہو یا حرم مدینہ سجدوں میں شریک زار زار رونے والا میرا دوست کسقدر نرم اور کمزور دل تھا اس کا اندازہ وہی کر سکتے ہیں جنہوں نے نیکی کے سفر اس کے ساتھ کئے ہوں ۔ مکہ اور مدینے میں ننگے پاوں گھومتے شیخ صبح صادق کی اللہ اور اس کے رسول پاک سے محبت کا اندازہ بھلا کون لگا سکتا ہے ؟اگر اس کے ساتھ گزرے واقعات بیان کروں تو پوری کتاب لکھنا پڑے گی کوشش کرونگا ایک آدھ واقعہ ضرور لکھتا رہوں تاکہ اسے یاد کرنے کا سلسلہ جاری رہے ۔سعید چشتی مرحوم ہمارا مشترکہ دوست تھا وہ کہتا تھا کہ ہر خاندان میں کوئی ایک شخص اس خاندان کے لیے “بخت “ہوتا ہے جو اس خاندان میں صدیوں بعدجنم لیتا ہے شیخ صبح صادق اپنے خاندان کا وہی “بخت “ہے۔ دیکھنے میں خوبصورت شخصیت کا مالک تو تھا ہی مگر اندر سے کتنا خوبصورت تھا اس کا ا ندازہ اس واقعہ سے لگایا جاسکتا ہے ۔ ۲۰۰۰ءمیں ہم نے اہل خانہ کے ہمراہ حج کا قصد کیا خوش قسمتی سےحضرت مولانا عبداللہ صاحب اس نیک سفر میں ہمارے رہبر تھے ۔اس مبارک حج کے سفر کی بےشمار یادیں آج بھی دل پر نقش ہیں ۔مکہ اور مدینہ میں ایک کمرے اور حرم میں گزارے پچاس دن بھلا کون بھول سکتا ہے ۔ایک دن فجر کی نماز کے لیے گئے تو ہم تینوں مرد نماز کی ادائیگی کے لیے حرم میں چلے گئے اور دونوں خواتین دوسری جانب خواتین کے ساتھ نماز پڑھنے چلی گئیں پروگرام یہ ہوتا تھا کہ نماز کے بعد ایک کلاک ٹاور کے پاس واپس اکھٹے ہونا ہوتا تھا اور پھر نماز ظہر تک ناشتہ اور آرام کرتے تھے ۔فجر کی نماز کے بعد دونوں خواتین راستہ بھول گئیں ہم نے سوچا شاید ظہر کے بعد آجائیں گئیں ۔ظہر ،عصر ،مغرب گزر گئی مگر وہ دونوں غائب ہوں پریشانی میں پورا حرم گھوم کر تلاش کرتے رہے پھر تلاش گمشدہ کے کانٹر پر اطلاع بھی دی جوں جوں وقت گزرتا جاتا شیخ صاحب کی پریشانی بڑھتی جاتی وہ تقریبا” رونے والا ہو چکا تھا عشاء تک اس کی حالت غیر ہوچکی تھی میں نے کہا یار شیخ صاحب یہ درست ہے کہ تمہاری بیوی ابھی نئی نئی ہے ۔مگر گو بڑی پرانی ہی سہی بیوی تو میری بھی گم ہے ۔کیوں اتنے پریشان ہوتے ہو ؟انشااللہ عشاء کے بعد ضرور وہ مل جائیں گئیں ۔میری بات سن کر شیخ صبح صادق جیسا باہمت نوجوان میرے گلے لگ کر باقاعدہ آنسوں سے رونے لگا ۔کہنے لگا یار مجھے اپنی سے زیادہ تمہاری بیوی کی فکر ہے میری والی تو صرف میری بیوی ہے لیکن تمہاری بیوی تو میری بھابھی بھی ہے اور بہن بھی ہے ۔میں اس پہاڑ جیسے انسان کو بچوں کی طرح روتا دیکھ رہا تھا اور اس کے اندر کی خوبصورتی کو محسوس بھی کررہا تھا ۔عشاٗء کے بعد جب وہ دونوں اپنی مقررہ جگہ پر ہمیں مل گئیں تو شیخ صاحب نے سجدہ شکر ادا کیا ۔ میں ڈر رہا تھا کہ وہ ہماری بھابھی پر بہت غصہ کریں گے مگر اس دن انہیں چپ لگ گئی تھی البتہ شکرانے کے آنسوں سے چہرہ بھیگ چکا تھا ۔یادیں بھی عجیب ہی ہوتی ہیں کبھی روتے ہوے دنوں کو یاد کرکے ہنسی آتی ہے اور کبھی ہنسنے والے دنوں کو یاد کرکے دل بھر آتا ہے شاید یہی زندگی ہے ۔ حج کے پچاس دن اکھٹے گزار کر واپسی پر جدہ ائیر پورٹ پہنچے جہاں میرے دوست عامرایاز خدا حافظ کہنے کو موجود تھے ۔شیخ صاحب کو ملوایا اور بتایا کہ عامر میرا لنگوٹیا بچپن کا دوست ہے تو مذاق میں کہنے لگے یار عامر خان میں نے پچاس دن تیرے اس بزدل دوست کے ساتھ گزارے ہیں یقین کر یہ جنتی شخص ہے ۔ وہ کہنے لگا شیخ صاحب وہ کیسے ؟ تو بولے میری ہم مزاج بہن کے ہمراہ زندگی گزارنے اور اسے صبر سے برداشت کرنے والا جنتی ہی ہو سکتا ہے ۔میں ہنس پڑا میں نے کہا شیخ صاحب اگر میں جنتی ہوں تو ہماری بھابھی اور آپکی بیگم بھی جنتی ہے ۔جو آپ جیسے غصے والے شخص کو برداشت کررہی ہے ۔پھر سب نے دیکھا کہ وہ پوری زندگی بلکہ مرتے دم تک وہ میری بیوی کو بھابھی نہیں سگی بہن کی طرح سمجھتے رہے اور شاید وہ واحد خاتون تھی جس کی سخت سے سخت اور تلخ سے تلخ بات پر بھی انہیں غصہ کبھی نہ آتا تھا ان کے بچے مجھے کہتے تھے انکل جب بھی ہمارے گھر آئیں تو آنٹی کو ضرور ساتھ لایا کریں ذرا ہمارے ابو جی کو دوچار کھری کھری باتیں سنا کر ان کی طبیعت درست کردیں ۔آج محبتوں کے اس سفر کو ختم ہوے ایک سال بیت گیا ہے ۔اللہ میرے دوست کی مغفرت فرماے اور درجات میں اضافہ فرماۓ اور اسکی اولاد میں بھی اسکی خصوصیات کی جھلک نظر آتی رہے ٔ آمین !

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.