مکمل عشق

58

ایک ایسی لڑکی کی کہانی جو سر سے پاؤں تک عشق میں ڈوبی ہوئی تھی

مریم چودھری

’’تمہیں ہر چیز اتنی آسان کیوں لگتی ہے ؟ تم ہر وقت مسکراتی رہتی ہو ؟ تم بڑی سے بڑی مصیبت میں بھی ہمیں نہیں پکارتیں۔ درد ہو تو تم چلاتی بھی نہیں۔ تم لوگوں کی پروا کیوں نہیں کرتی ؟ تم نے کبھی نہیں سوچا کہ لوگ تمہارے بارے میں کیا سوچتے ہوں گے۔ ایک ہم ہیں جو اپنی زندگی ہی لوگوں کے لیے جیتے ہیں۔ تم اتنی الگ سی کیوں ہو؟ آخر ایسا کیا ہے تم میں؟ جو تمہیں ہم سب سے ممتاز بناتا ہے۔ ایسا سکون اور اطمینان ہمیں نصیب کیوں نہیں؟ کچھ تو خاص ہے تمہارے پاس ہے جو ہم نہیں جانتے۔‘‘
فجر عجوہ کے ساتھ چائے کی بیٹھک پر یہ گفتگو کر رہی تھی۔ عجوہ مسکراتی رہی۔ عجب نور تھا اس کے چہرے پر۔ فجر کو شک تھا کہ عجوہ کو یقیناً کسی سے محبت ہے تبھی اتنے رنگ اس کے چہرے پر کھلتے ہیں مگر کس سے؟ کون ہے وہ جس کے عشق میں عجوہ اتنی سرشار رہتی ہے؟ فجر جاننا چاہتی تھی لیکن پوچھنے کی ہمت کبھی نہ کر سکی۔ اتنے میں عجوہ کی کلاس کا وقت ہو گیا۔ اُسے اُٹھ کر جانا پڑا۔
٭٭٭
’’ دیکھو عجوہ ! میں کب سے تمہارا انتظار کر رہی تھی اور تم ہو کہ اتنی دیر سے آئی ہو۔ کاش ہماری کلاس بھی ایک ساتھ ہی ہوتی۔ یہ چند گھنٹوں کی دُوری بھی مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ عجیب بے چینی ہوتی ہے۔ پتا نہیں کیوں؟ مجھے سمجھ نہیں آتا۔ اس دوستی میں ایسی کیا خاص بات ہے؟‘‘ یونیورسٹی کے باہر کھڑے فجر عجوہ سے مخاطب تھی۔
’’اچھا بابا! اب ایسا نہیں ہوگا۔ کوشش کروں گی جلد باہر آ جایا کروں۔‘‘ عجوہ مسکراتے ہوئے فجر کا ہاتھ تھامے چل رہی تھی۔ اسی ازلی اطمینان اور مخصوص نرم مسکراہٹ کے ساتھ جو اس کی شخصیت کا خاصہ تھی۔
٭٭٭
بھائی مجھے سمجھ نہیں آتا عجوہ کا اور میرا آٹھ سال کا سفر ہے۔ میں نے کبھی بھی اس لڑکی کو جھگڑا کرتے نہیں دیکھا۔ ہر چیز سے مطمئن رہتی ہے… اور تو اور اپنے حق کے لیے بھی نہیں لڑتی۔ بہت ہی خوش رهنے والوں میں سے ہے۔ جب بھی کچھ مانگو، دے دیتی ہے۔ مدد کے لیے ایسے بھاگتی ہے جیسے اس کے سوا کوئی ذمہ دار نہیں ہے۔ مجھے آج تک میری اور اس کی دوستی سمجھ ہی نہیں آئی۔ ادھر مجھے تکلیف ہوئی اور دوسرے ہی پل وہ میرے پاس ہوتی ہے۔ ایسے جیسے میرا اور اس کا روحانی رشتہ ہو… انتہائی گہرا۔
’’بھائی اس میں ضرور کچھ ہے۔ ورنہ کوئی کیسے آپ کے سکون کی وجہ بن سکتا ہے مگر ایک بات ہے، آج تک میں اس کے گھر نہیں جا سکی۔ مجھے جانا چاہیے۔ اب تو اتنا وقت گزر گیا اور یونیورسٹی بھی مکمل ہونے کو ہے۔ مجھے معلوم ہے اس دفعہ پھر سے عجوہ ہی ٹاپ ٹین میں آئے گی۔‘‘ یونیورسٹی جاتے ہوئے فجر اپنے بھائی سے محو گفتگو تھی۔ اتنے میں وہ یونیورسٹی پہنچ گئے۔ فجر نے گاڑی سے اُتر کر بھائی کو خدا حافظکہا اور اندر کی جانب چل دی۔ اس کی نگاہیں عجوہ کو ہی ڈھونڈ رہی تھیں
٭٭٭
اتنا وقت ہونے کو ہے، عجوہ کہاں رہ گئی؟ وہ تو چھٹی بھی نہیں کرتی…اور… اور اب تو آخری سمیسٹر کے امتحانات بھی سر پر ہیں۔ چھٹی کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا مگر وہ کہاں ره گئی؟ فون کال بھی نہیں اُٹھا رہی۔
فجر کافی دیر سے عجوہ کا انتظار کر رہی تھی اور آتے جاتے ہر شخص سے پوچھ چکی تھی مگر سارا دن گزر جانے کے بعد تک کوئی خیر خبر نہ مل سکی۔ اس کی بے چینی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ فجر نے گھر آتے ہی وہ پرانی کتاب نکالی جہاں عجوہ کے گھر کا پتا موجود تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ اس کی گلی میں موجود تھی۔
٭٭٭
عجوہ کے گھر کے قریب بہت ہجوم تھا۔ لوگ ہی لوگ۔ جوں ہی فجر اس کے گھر میں داخل ہوئی تو معلوم ہوا کہ عجوہ اب اس دنیا میں نہیں رہی۔
’’ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ وہ مجھے چھوڑ کر کیسے جا سکتی ہے؟ لیکن یہ کیا؟ میں جیسے ہی یہاں آئی ہوں مجھے عجیب سا سکون ملا ہے جیسے میں عجوہ کے پاس ہوں۔ وہ نہیں جا سکتی۔ ایسا ممکن ہی نہیں۔ اچانک یہ خبرسن کر فجر خود کو سنبھال نہ سکی اور عجیب صدمے میں چلی گئی۔
وہ عجوہ کے کمرے میں ایک ایک چیز حیرت اور آنکھوں میں آنسوؤں کی برسات لیے دیکھ رہی تھی۔ دیواروں پر محمدؐ کے پاک نام کی خطاطی والے فریم، درود شریف لکھے فریم، عجوہ کے ہاتھوں سے لکھا محمدؐ کا نام، جگہ جگہ۔ اس کی نوٹ بک فجر کے ہاتھ میں تھی۔ جس میں لکھی ہر تحریر کا ایک ایک لفظ عشق رسولﷺ کا گواہ تھا۔ اوہ…تو وہ یہ عشق تھا جس میں عجوہ گم تھی، سر تا پاؤں ڈوبی ہوئی تھی۔ یہی وہ نام اور مکمل ذات تھی، جس کی خوشبو فجر کو عجوہ سے جوڑے رکھتی تھی۔ یہی وہ سکون تھا، جو عجوہ کے اندر سے نکل کر فجر کو اپنے اندر اُترتا محسوس ہوتا تھا۔ کہ وہ بے خود سی ہو کر عجوہ کے پاس بھاگی آتی تھی۔ تو وہ روحانی رشتہ یہ تھا۔ آج فجر گنگ تھی۔
٭٭٭
’’میرا ہمیشہ یہ کہنا تھا کہ عشق محض اذیت کے سوا کچھ بھی نہیں‘‘ اور عجوہ ہمیشہ اس کے خلاف بولتی۔ وہ کہتی، ’’بھلاعشق میں اذیت کیسے ہو سکتی ہے؟ یہ تو تسکینِ دل کے سوا کچھ بھی نہیں۔‘‘ وہ کتنی سچی تھی۔ وہ بالکل ٹھیک کہتی تھی اور میں جاہل اسے دنیاوی اور عام عشق سمجھتی رہی۔
جس کا عشق الله اور آپ صلى الله عليه وسلم ہو بھلا اس میں اذیت کیسی؟…اور اس کی زندگی میں بے چینی کیسی؟ تکلیف کیسی؟ مجھے آج ہر اس سوال کا جواب مل رہا ہے جو میں اس سےآٹھ سال پوچھتی رہی اور اس کا وہ مطمئن انداز میں مسکرا دینا۔ مجھے آج احساس ہوا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ کا ذکر کر کے، ان سے عشق کر کے بہت سکون ملتا ہے… اور پھر ساتھ رہنا۔
عجوہ کا عشق بھی مدینہ تھا… اللہ تعالیٰ ‎ اور آپﷺ۔ میں ہمیشہ عجوہ سے پوچھتی رہتی مگر مجھے اب جواب مل گیا ہے کہ… عشق میں کتنا سکون ہے۔ محبت اللہ‎ تعالیٰ اور آپﷺ سراپا عشق… عشق میں سکون کے سوا کچھ بھی نہیں اور اللہ‎ اور آپﷺ سے عشق ہی مکمل عشق ہے۔
فجرحرم پاک میں بیٹھی اپنے بھائی سے گفتگو کر رہی تھی۔ آج اس کے ارد گرد بھی سکون کے سوا کچھ نہیں تھا۔
٭٭٭

sunday special
31/03/24

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.