عربی زبان سے محبت اور اس کے ادب کا جذبہ ہر مسلمان کے دل میں موجزن ہے
کیونکہ اللہ کا پاک کلام اسی زبان میں نازل ہوا ہے
ہمارے لوگ عربی زبان کے گانے بھی ادب سے سنتے ہیں اور عربی زبان میں نشر ہونے والی نشریات بھی
بڑی محبت اور احترام سے سنتے ہیں عربی زبان سے عقیدت و محبت کے بےشمار واقعات سننے میں آئے ہیں
ایک مشہور بات ہے کہ نسوار رکھنے والا ایک شخص عمرہ کرنےگیا تو ساتھ نسوار بھی لے گیا۔
نسوار کی طلب ہوئی تو راہ چلتے ہوئے عادت کے مطابق نسوار کی پڑیا نکالی اور نسوار رکھنے لگا۔۔
ایک عربی شرطہ دوڑتا ہوا آیا اور بڑی سختی سے بولا
“یا شیخ کل شیء من االنسوار والاشياء خبیثہ وغلیظہ ممنوعہ”وہ شخص شرطے کے گلے لگ گیا
اور روتے ہوئے بولا ایک عرصے سے نسوار رکھ رہا ہوں
آج پتہ چلا نسوار رکھنے کی دعا بھی ہوتی ہے۔
اسی طرح عام عربی زبان بولنے پر بھی ہمارے بزرگ سبحان اللہ کہا کرتے تھے
ایک تو ہماری عوام پڑھی لکھی نہیں اوپر سے سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتی
جہالت عروج پر ہے ہماری عربی زبان سے محبت اور اس کے ترجمے سے کم علمی یا لا علمی
بسا اوقات ہم سے غلط فیصلے کرا دیتی ہے
یاد رہے کہ عربی ایک زبان ہے جو عام بول چال اور لکھنے پڑھنے میں پورے عرب میں استعمال ہوتی ہے
عرب دنیا میں ہر عربی بولنے والے سے قرآن کا تعلق نہیں ہوتا
وہ تو بس اپنی مادری زبان بولتا ہے اسی طرح ہر عربی کی ہر تحریر قرآن نہیں ہو سکتی ۔
دنیا میں بےشمار غیر مسلم بھی عربی بولتے اور لکھتے ہیں ۔
خدا کا شکر ہے کہ گزشتہ روز ملک پاکستان ایک سانحے سے بچ گیا
اچھرہ جیسی رش والی جگہ ایک خاتون کو ہجوم نے اس لیے گھیر لیا کہ
انہیں لگتا تھا کہ اس خاتون نے خدانخواستہ قرآنی آیات والا لباس زیب تن کر رکھا ہے
یہ خاتون اپنے شوہر کے ہمراہ یہاں پہنچی تھی اور اگر پولیس موقع پر نہ پہنچتی تو
شاید یہ ہجوم خاتون کو نقصان بھی پہنچا سکتا تھا
یہ جذباتی ہجوم اسقدر مشتعل اور پرجوش تھا کہ اس خاتوں کی جان کو خطرہ ہو سکتا تھا
یہ ہجوم جذباتی ضرور تھا مگر کسی کو یہ توفیق بھی نہ ہوئی کہ اتنی تو معلومات کر لے
کہ یہ سوٹ دراصل قرآنی آیات نہیں بلکہ عربی کیلیگرافی والا ڈائزائین ہے
جو سعودیہ میں تیار ہوتا اور عام ملتا ہے
اور اس پر عربی میں حلوہ لکھا ہوا ہے اور اس کے معنی حسین ،خوبصورت اور سویٹ کے ہوتے ہیں
اور یہ کپڑا عرب ممالک میں مردو خواتیں استعمال کرتے ہیں
پاکستان میں توہین مذہب یا توہیں رسالت کے الزام میں مشتعل ہجوم کی جانب سے
تشدد کرنے کے واقعات نئے نہیں ہیں پاکستان میں پرتشدد ہجوم کے ہاتھوں
شہریوں کی ہلاکت اور جلاو گھیراو کا سلسلہ بڑھتا جارہا ہے
سزاو جزا کا فیصلہ ہجوم اپنے ہاتھوں میں لے لیتا ہے اور نہتے شہری جو عام طور پر معصوم ہوتے ہیں
ایسے ہجوم کے جبر کا شکار ہو جاتے ہیں
اس سے قبل چنی گوٹھ میں بھی اسی طرح کے توہین مذہب کے الزام پرایک پاگل شخص کو
سرعام آگ لگا کر جلا دیا گیا تھا
کہتے ہیں کہ مشتعل ہجوم نے وہاں کے پولیس اسٹیشن کو بھی آگ لگا کر جلا دیا تھا
جس پر تقریباً ایک ہزار نامعلوم افراد کے خلاف ایف آئی آر درج بھی ہوئی تھی
جڑانوالہ اور سیالکوٹ اور دیگر شہروں کےواقعات بھی بڑے دردناک تھے جن کی وجہ سے دنیا بھر میں بلاوجہ ہمارے ملک کی بدنامی ہوئی۔
اس مرتبہ شاباش ہے اس نوجوان اور بہادر اے ایس پی گلبرگ خاتون شہر بانو نقوی کی کہ جس کی بروقت کاروائی نے صورتحال کو نہ صرف مزید بگڑنے نہ دیا
بلکہ اس ناخوشگوار صورتحال میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر اس متاثرہ خاتوں کو بھی مشتعل ہجوم سے بحفاظت نکال کر محفوظ کر لیا
شہر بانو نے عوام کے مشتعل جذبات کو دیکھتے ہوے معاملہ کو ٹھنڈا کیا اور بڑی فراست کا ثبوت دیا ۔
جبکہ بعد ازاں مقامی علما کی جانب سے یہ وضاحت کی گئی کہ خاتوں کی قمیض پر موجود پرنٹ پر کوئی قرآنی آیت نہیں لکھی ہوئی ہے ۔
سوشل میڈیا پر اتوار کو ایک ویڈیو گردش کرنے لگی تھی جس میں اے ایس پی شہر بانو کو بہادری کے ساتھ مشتعل ہجوم سے بات کرتے اور خاتوں پو لیس افسر کو سیکورٹی حصار میں ایک خاتون کو نقاب اور برقعے میں ڈھانپ کر لاہور کے علاقے اچھرا سے بحفاظت لے جاتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے
اس خوفزدہ خاتون اور اس کے شوہر کے مطابق انہوں نے یہ کرتا ڈائزاین سمجھ کر لیا تھا
انہیں معلوم نہ تھا کہ اس پر کچھ ایسا لکھا ہے جس سے لوگ یہ سمجھیں کہ شاید کوئی عربی لکھی ہے
میری کوئی ایسی نیت نہیں تھی مگر میں پھر بھی معافی مانگتی ہوں
اور وہ آئندہ ایسا لباس نہیں پہنیں گی ۔
وزیر اعظم کے معاون خصوصی علامہ طاہر اشرفی نے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا
اور کہا ہے کہ خاتون کو ہراساں کرنے والوں کو معافی مانگنی چاہیے
اچھرہ میں اس خاتوں کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ جہالت پر مبنی ہے ۔
انہوں نے بہادر خاتون اے ایس پی کو شاباش دی جس نے خاتون کو مشتعل ہجوم سے بچایا
ہماری پنجاب کی نئی وزیر اعلی مریم نواز نے بھی اس باہمت اے ایس پی کی بہادری اور جرت کو سراہا ہے
پاکستانی میڈیا اور سوشل میڈیا پر اس باہمت اے ایس پی کے بڑے چرچے نظر آتے ہیں
مگر سوال یہ ہے کہ اس طرح کے واقعات سے بچنے کے لیے کن اقدامات کی ضرورت ہے
اور اس جنویت سے کیسے بچا جاسکتا ہے ؟ ریاست اس بارے میں بےبس کیوں نظر آتی ہے ؟
سوشل میڈیا پر خاتون اے ایس پی مہر بانو نقوی کی بہادری کو سراہا جارہا ہے
جبکہ ایک اطلاع کے مطابق آئی جی پنجاب نے کہا ہے کہ پنجاب پولیس خاتون
اے ایس پی کی بہادارنہ کارنامے پر انہیں قائداعظم پولیس میڈل سے نوازنے کے لیے
حکومت پاکستان کو سفارشات بھیج رہی ہے ۔
دوسری جانب سوشل میڈیا بلا سوچے سمجھے اس طرح کی مذہبی جذباتیت کی پرزور مذمت کی جا رہی ہے ۔
اور یہ سوال بھی اٹھایا جارہا ہے کہ جب تمام حقائق جان کر یہ ثابت ہوگیا تھا یہ خاتون بے گناہ ہے
تو پھر اسے چار لوگوں میں بٹھا کر شرمندہ اور معافی کیوں منگوائی گئی ؟
اس طرح کے واقعات سے لوگوں میں ڈر خوف اور عدم تحفظ کا احساس اجاگر ہو رہا ہے ۔
دینی تعلیمات سے دوری اور کم علمی ایسے واقعات کا بنیادی سبب ہوتے ہیں
ہماری قوم کو ایک ایسی نئی جدوجہد کی ضرورت ہے جس کے ہتھیار علم ،قلم اور کتاب ہو
جس کے لیڈر اہل فکر ہوں دانشور اور عالم ہوں اور اس کا شکار جہالت ،لاعلمی اور پسماندگی ہو ۔
جہالت مٹانے کے اس سلسلے میں ہمیں انفرادی اور اجتماعی طور پر
شعوری بیداری کی بھی اشد ضرورت ہے
معاشرے میں جہالت ،مذہبی منافرت اور شدت پسندی کے خاتمے کے لیے
ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے
خدا نخواستہ اگر کوئی بھی شخص کسی بھی طریقے سے مذہبی گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے
تو قانونی راستہ اختیار کیا جاے اور متعلقہ تھانے سے رابطہ کیا جائے
پھر پولیس جانے اور عدالت جانے کوئی بھی ہجوم گھیراو کرکے سزا دینے کا حق نہیں رکھتا
اور نہ ہمارا مذہب اور قانون اس کی اجازت دیتا ہے ۔
ہر مسلمان یکساں مذہبی جذبات رکھتا ہے اور خاص طور پر توہین مذہب
اور توہین رسالت پر اپنی جان قربان کرنے کو تیار ہے جو ایک قابل قدر جذبہ ہے
کہتے ہیں کہ جب آپ ہجوم کاحصہ بن جائیں تو آپ کی انفرادی شناخت اور پہچان تو ختم ہو جاتی ہے
مگر اس کے ساتھ ہی آپ کی سوچنے سمجھنے کی انفرادی صلاحیت بھی دب کر رہ جاتی ہے
اور آپ وہی کرتے ہیں جو ہجوم کرتا ہے۔ اس لیے ایسے موقع پر جذبات سے نہیں
بلکہ حکمت سے قانونی طریقہ اپنانا ضرورہی ہے قانون ہاتھ میں لینے سے اجتناب کرنا چاہیے
ایسا نہ ہو کہ ہجوم کے ہاتھوں کوئی بے گناہ ہی نشانہ بن جائے
کیونکہ بلاوجہ کسی ایک انسان کا قتل بھی پوری انسانیت کا قتل ہوتا ہے ۔
بہر حال اے ایس پی مہر بانو نقوی کی بہادرانہ کاشوں اور جرت مندانہ اقدام کو
خراج تحسین پیش کرنا چاہیے جوہماری پوری پنجاب پولیس کے لیے ایک قابل تقلید کارنامہ اور ایسی مثال ہے
جس نے پورے پاکستان کے عوام کے دل جیت لیے ہیں ۔
احساس کے انداز
تحریر ؛۔جاویدایازخان
https://dailysarzameen.com/wp-content/uploads/2024/02/p3-21-1-scaled.jpg