“سراغِ زندگی” ۔۔۔نوید مرزا کی اقبال کہانیاں

تحریر۔۔۔امجد علی

3

بچے کون ہیں؟ کہاں سے آتے ہیں؟ یہ کتنے قیمتی ہیں؟ اور ہمیں انہیں آنے والے زمانوں کی تعمیر و ترقی کی بھاری ذمہ داریوں کے لیے کیسے تیار کرنا ہے تاکہ یہ ستاروں پر کمند ڈالنے والے بن سکیں؟
ایسے سینکڑوں سوالات ہر حساس اور اہلِ فکر کے دل و دماغ میں جنم لیتے رہتے ہیں اور بطورِ قوم ہمارا فرض ہے کہ ان کا جواب تلاش کریں۔

اگر افلاک کی زینت ستارے ہیں تو زمین کی رونق ہمارے بچے ہیں کلیوں جیسے، پھولوں جیسے، بلکہ آنگن آنگن جھلملاتے وہ جگنو اور ستارے ہیں، جو گویا زمین پر اترے آسمانی چراغ ہوں۔

جس طرح ایک نازک پھول کو روزانہ دیکھ بھال، پانی، روشنی اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے، ویسے ہی اشرف المخلوق ایک انسانی بچے کو تربیت، محبت، علم، اخلاق اور رہنمائی کی مسلسل روشنی درکار ہے۔ کیونکہ اسی نے کل کو اقوام کی رہبری کرنی ہے، تہذیبوں کی تشکیل کرنی ہے، اور مستقبل کے اندھیروں میں چراغ بننا ہے۔

جیسے تارے اندھیری رات کے آسمان پر روشنی بکھیرتے ہیں، ویسے ہی بچے اس دنیا کے افق پر امید، معصومیت، اور مسرت کی کرن بن کر چمکتے ہیں۔
ہر بچہ ایک الگ کہکشاں کا ستارہ ہے، جو اپنے رنگ، اپنی روشنی، اور اپنی چمک کے ساتھ دنیا میں پھیلی تاریکیوں کو روشنی میں تبدیل کر دیتا ہے۔

تارے آسمان کی بلندیوں کی علامت ہیں، اور بچے ہمارے کل کے خوابوں کی تعبیر ضمانت ہیں۔ اگر ہم ان کی حفاظت کریں، انہیں علم و اخلاق، پیار و شعور، اور فکری و روحانی تربیت سے آراستہ کرتے رہیں، تو یہی ننھے ستارے کل سورج بن کر چمکیں گے اور تاریکیوں کو مٹا ڈالیں گے۔

بچوں کی معصوم ہنسی، ان کی ننھی باتیں، کھلتی باشیں، بلند ہوتی کلکاریاں یوں محسوس ہوتی ہیں جیسے خاموش رات میں تارے سرگوشیاں کر رہے ہوں۔
اس لیے بچوں کی پرورش، حفاظت، اور تربیت انتہائی لازم ہے
ہماری معاشرتی اور اجتماعی سوچ میں ایک گہری کوتاہی پوشیدہ ہے—ہم بچے کو محض ایک نادان، ناپختہ اور کمزور ہستی سمجھ کر اس کی زندگی کے سب سے بیش قیمت ایّام کو نظرانداز کر دیتے ہیں، گویا وہ ابتدائی سال کسی کام کے نہیں۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔

جب ایک بچہ پیدا ہوتا ہے، تو اس کے ذہن کے نیوران کسی جدید ترین اسکینر، بلکہ ایک جیتے جاگتے کوانٹم کمپیوٹر کی مانند ہوتے ہیں ایسا حساس اور باریک بیں نظام جو اردگرد کی ہر حرکت، ہر لفظ، ہر جذبے اور ہر ماحول کو خاموشی سے اپنے اندر جذب کرتا چلا جاتا ہے۔ وہ سنتا ہے، دیکھتا ہے، سیکھتا ہے اور سب کچھ اپنے لاشعور میں محفوظ کرتا جاتا ہے۔ اس کی یادداشت، مشاہدہ، اور فہم کی صلاحیت اس قدر نازک اور تیز ہوتی ہے کہ وہ خاموشی سے مستقبل کی زندگی کے نقش ترتیب دے رہا ہوتا ہے۔

یہی زندگی کے ابتدائی پانچ سال دراصل وہ سنہری وقت ہوتے ہیں، جب بچے کی شخصیت، کردار، اور مستقبل کی بنیاد اس کی لوح پر محفوظ کی جا رہی ہوتی ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارا نظام، ہماری انٹیلیجینشیا، اور ہم سب بحیثیتِ قوم اس نازک مرحلے کی اہمیت سے یا تو غافل ہیں یا اسے سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ ہم بچوں کے ذہنوں میں تخلیق، محبت، علم اور اعتماد کے بیج بونے کے بجائے ان کے قیمتی لمحات کو بے مقصدیت اور غفلت کی نذر کر دیتے ہیں۔

اگر ہم نے واقعی اپنے کل کو سنوارنا ہے تو آج کے بچے کو سمجھنا، سنبھالنا، اور سنوارنا ہوگا کیونکہ یہی بچہ آنے والا معمارِ قوم ہے، یہی مستقبل کا رہنما، اور یہی وہ چراغ ہے جو زمانے کی راہوں کو روشن کرے گا۔

یقیناً ادبِ اطفال کے لکھاری اپنی ذمہ داریوں سے غفافل نہیں۔ وہ اپنی پوری علمی، تخلیقی اور فکری استعداد کے ساتھ نسلِ نو کی تربیت و تعمیر میں سرگرمِ عمل ہیں۔
اردو میں بچوں کا شعری و نثری ادب بہت قدیم ہے۔سینکڑوں برس پہلے خسرو اور میر تقی میر نے بچوں کے لئے نظمیں لکھیں۔بعدازاں غالب، نظیر اکبر آبادی،،اسماعیل میرٹھی،اقبال ،صوفی غلام مصطفیٰ تبسم ،بشیر منذر اور قیوم نظر نے اعلی پائے کی نظمیں لکھیں جب کہ نثری ادب میں امتیاز علی تاج، میرزا ادیب،مقبول جہانگیر،اے حمید،سعید لخت ،مسعود احمد برکاتی اور اشتیاق احمد نے شہرت پائی۔بعد ازاں اس قافلے میں نذیر انبالوی اور محمد
نوید مرزا بھی شامل ہوگئے “آنگن آنگن تارے”، “ٹوٹ بٹوٹ” وغیرہ اور اس نوع کی دیگر تخلیقات اس میدان میں اہم سنگِ میل کی حیثیت رکھتی ہیں، اگرچہ عالمی سطح پر دیکھا جائے تو پاکستان میں بچوں کے معیاری ادب کی مقدار ابھی بھی تشنہ تکمیل یا کہئے آٹے میں نمک برابر ہے۔

اسی ادبی سفر میں کئی مشاق قلمکاروں نے بچوں کی دلچسپی، ذہنی ساخت، اور نفسیات کو مدِنظر رکھتے ہوئے جدید اندازِ بیان اپنایا۔ کہانی کو فقط تفریح نہیں بلکہ تربیت اور بصیرت کا ذریعہ بنایا۔ انہی منفرد کوششوں میں ایک اہم نام محمد نویدمرزا کا ہے، جنہوں نے علامہ اقبال کے منتخب اشعار کو بنیاد بنا کر ہر شعر کے مفہوم پر بچوں کی کردار سازی کے لیے ایک دلچسپ، سبق آموز اور فکری کہانیاں تخلیق کیں۔ ایسا تجربہ جو نہ صرف بچوں کے لیے دلنشین ہے بلکہ لکھاریوں کے لیے بھی ایک قابلِ تقلید مثال ہے۔نوید مرزا نے اقبال کہانی کا آئیڈیا 2003ء میں شاعر مشرق کے 125 ویں یوم ولادت کے موقع پر کرایا تھا اور سراغ زندگی کا پہلا ایڈیشن 2006ء میں شائع ہوا تو ہر طرف اس کتاب کی دھوم مچ گئی اور پھر یہ کتاب ہزاروں کی تعداد میں شائع ہوئی۔ یہ منفرد کاوش بچوں کے ذہنوں میں فکر، بصیرت اور اقبالی پیغام کو راسخ کرنے کی ایک نہایت مؤثر کوشش ہے، جسے ادبِ اطفال کے منظرنامے میں قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے۔

اس سفر کو جاری رکھتے ہوئے آج یکم اگست (2025)کو الصبح مجھے معروف مصنف، کہانی کار اور ادبِ اطفال کے دردمند قلم کار نوید مرزا صاحب کی ایوارڈ یافتہ کتاب “سراغِ زندگی” کا پانچواں، رنگین و دلکش ایڈیشن تحفے کے طور پر موصول ہوا۔ یہ کتاب علامہ اقبال کے منتخب اشعار پر مبنی کہانیوں کا ایک ایسا خوبصورت

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.