دوہری شہریت اور ریاستی وفاداری کا سوال

تحریر: محمد ندیم بھٹی

3

پاکستان ایک ایسا ملک ھے جس کی جڑیں قربانی، وفاداری اور نظریاتی وابستگی پر استوار ھیں۔ مگر اس ریاست کو سب سے بڑا چیلنج انہی لوگوں سے درپیش ھے جو اقتدار، اختیار اور سہولتوں کی مسند پر بیٹھ کر ریاست سے زیادہ اپنے ذاتی مفاد کو ترجیح دیتے ھیں۔ گزشتہ دنوں خواجہ آصف کی ایک ٹویٹ نے نہ صرف سوشل میڈیا پر ہلچل مچا دی بلکہ پاکستانی ریاستی اہلکاروں کی وفاداری پر بھی کئی سوالات اٹھا دیئے۔ خواجہ آصف نے لکھا کہ “ہر بیوروکریٹ پرتگال کی گولڈن ویزا اسکیم کے تحت شہریت حاصل کرنا چاھتا ھے۔” یہ جملہ بظاہر طنزیہ تھا، مگر اس میں چھپی حقیقت نے ہر ذی شعور پاکستانی کو چونکا دیا۔
یہ حقیقت اب ڈھکی چھپی نہیں کہ پاکستان کے اعلیٰ حکام، بشمول سیاستدان، بیوروکریٹس، سرمایہ دار اور بعض اوقات صحافی تک، دوہری شہریت یا بیرونِ ملک مستقل اقامت کی طرف راغب ھیں۔ سوال یہ پیدا ھوتا ھے کہ اگر اِن طاقتور طبقات کا دل، ذھن اور سرمایہ بیرونِ ملک ھے تو وہ ریاستِ پاکستان کے ساتھ کیسے وفادار رھ سکتے ھیں؟ کیا وہ پالیسی سازی کے وقت ریاستی مفاد کو اولیت دیں گے یا اپنے بیرونی ملک میں مقیم خاندان اور بینک اکاؤنٹس کو؟
پرتگال کی گولڈن ویزا اسکیم ان چند یورپی پالیسیوں میں سے ایک ھے جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کو مستقل سکونت، بعد ازاں شہریت، اور یورپی یونین تک رسائی کا راستہ فراہم کرتی ھے۔ شرط یہ ھے کہ آپ کچھ لاکھ یورو کی سرمایہ کاری کریں، جائیداد خریدیں یا روزگار کے مواقع پیدا کریں۔ خواجہ آصف کی یہ نشاندہی کہ پاکستانی بیوروکریٹس اس پالیسی سے فائدہ اٹھا رھے ھیں، ہمارے ریاستی اداروں کی کمزوری اور ترجیحات کی عکاسی کرتی ھے۔
خواجہ آصف خود بھی کئی بار دہری شہریت اور بیرونی وابستگیوں پر سوالات کی زد میں رھے ھیں۔ مگر اس بار انھوں نے جو بات کہی، وہ اُن کے سیاسی مخالفین پر طنز نہیں بلکہ ریاست کے اندرونی ڈھانچے کی نقاب کشائی ھے۔ اور اس تناظر میں حالیہ دنوں ایک اور واقعہ نمایاں ھوا۔
ایڈیشنل کمشنر ریونیو اقبال سنگھئڑا کی گرفتاری۔ جو انتخابات میں ریٹرنگ افسر بھی رہ چکے ہیں۔جنہوں نے خواجہ آصف کے انتخابات می رزلٹ کی کایا پلٹ دی تھی ۔اقبال سنگھئڑا کا شمار اُن افسران میں ھوتا ھے جو اپنی ملازمت کے دوران اہم ترین انکوائریوں اور تحقیقاتی امور کا حصہ رھے۔ ان پر الزام ھے کہ انھوں نے اختیارات کے ناجائز استعمال، کرپشن، اور حساس معلومات کے تبادلے میں کردار ادا کیا۔ اُن کی گرفتاری اس بات کا ثبوت ھے کہ ریاستی اہلکار نہ صرف طاقت کے منصب پر براجمان ھیں بلکہ بعض اوقات اس طاقت کا استعمال غیر ریاستی یا ذاتی مفاد کے لئے بھی کرتے ھیں۔
اگر اقبال سنگھئڑا جیسے افسران بیرونِ ملک جائیدادیں بنائیں، شہریت کی درخواستیں دیں یا خفیہ روابط رکھیں تو ریاست کیسے ان پر مکمل اعتماد کر سکتی ھے؟ یہی وہ لمحہ فکریہ ھے جس کی طرف خواجہ آصف نے توجہ دلائی، شاید نادانستہ طور پر۔
لیکن اب ان کی گرفتاری پر اپنا زور نا چلنے پر اپنیے سیاسی عہد ے سے استعفہ کی دھمکی دے چکے ہیں مسئلہ صرف بیوروکریسی تک محدود نہیں۔ کئی وفاقی وزراء، ارکانِ اسمبلی، اور اعلیٰ عدالتی عہدیداران کی دوہری شہریت یا بیرونِ ملک جائیدادوں کے انکشافات ماضی میں سامنے آ چکے ھیں۔ کیا کوئی ایسا قانون ھے جو ان کے احتساب کو یقینی بنائے؟ کیا ریاست میں ایسا میکنزم موجود ھے جو اقتدار میں بیٹھے افراد کو اپنی وفاداری کا ثبوت دینے پر مجبور کرے؟
پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں عوام کو بنیادی سہولتیں تک میسر نہیں، جب کہ عوامی نمائندے اپنے بچوں کو بیرونِ ملک تعلیم دلواتے ھیں، علاج کرواتے ھیں، سرمایہ منتقل کرتے ھیں، اور پھر وہاں مستقل اقامت یا شہریت کی درخواست دیتے ھیں۔ یہ رویہ ریاستِ پاکستان کے ساتھ بےوفائی کے مترادف ھے۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ھے کہ کیا دوہری شہریت رکھنے والا شخص پاکستان کے قومی مفاد میں فیصلہ کر سکتا ھے؟ اگر اُس کی وفاداری دو ملکوں میں بٹی ھو تو وہ مشکل وقت میں کس طرف کھڑا ھوگا؟ ایسے کئی واقعات گزرے ھیں جہاں دوہری شہریت رکھنے والے افراد نے بحران کے وقت پاکستان چھوڑ کر بیرونِ ملک پناہ لے لی۔
ریاستی اداروں کو اب اس معاملے پر سنجیدگی سے غور کرنا ھوگا۔ دوہری شہریت رکھنے والوں کو اہم عہدوں سے الگ کرنا، اُن پر کڑی نگرانی رکھنا اور حلف ناموں میں شفافیت یقینی بنانا وقت کی اہم ترین ضرورت ھے۔ محض بیانات یا ٹویٹس سے ریاستی وفاداری کا سوال حل نہیں ھوگا۔
خواجہ آصف کا یہ بیان کہ “ہر بیوروکریٹ گولڈن ویزا لینے کو تیار بیٹھا ھے”، ہمیں جھنجھوڑنے کے لئے کافی ھے۔ یہ بیان اس وقت اور بھی اہم ھو جاتا ھے جب ہم دیکھتے ھیں کہ اقبال سنگھئڑا جیسے افراد پر سنگین الزامات کے بعد بھی بعض حلقے اُن کے دفاع میں سرگرم ھیں تحقیقات میں راز افشا ں ھونے کا ڈر ان کو سونے نہیں دے رھا۔ اگر ریاستی ڈھانچے کو واقعی بچانا ھے تو ہمیں اپنی ترجیحات، قوانین اور احتسابی عمل کو بدلنا ھوگا۔
پاکستان کو آج ایسے بیوروکریٹس، سیاستدانوں اور افسران کی ضرورت ھے جو اس دھرتی سے جڑیں رکھتے ھوں، جو مشکل وقت میں ملک چھوڑ کر نہ بھاگیں، اور جن کے بچے اسی نظام تعلیم، اسی اسپتال، اور اسی بازار کا سامنا کریں جس کا ایک عام پاکستانی کرتا ھے۔ وگرنہ یہ ملک صرف ایک تجربہ گاہ بن کر رھ جائے گا، جہاں مفاد پرست آتے رھیں گے، فائدہ اٹھاتے رھیں گے، اور پھر اپنے دوسرے “وطن” میں جا کر بس جائیں گے۔
ریاست کی سلامتی کے لئے ضروری ھے کہ ہم اپنے اداروں کو وفاداری کا معیار سمجھائیں، نہ کہ صرف کارکردگی کا۔ کیونکہ کارکردگی وقتی ھوتی ھے، مگر وفاداری ایک مستقل سہارا ھوتا ھے جس کی پکار پاکستان کے چھبس کروڑ عوام ہیں۔

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.