دھندہ اور بندہ

تحریر: خالد غورغشتی

2

نہ جانے ہم کب تک اپنی بے حسی کا جشن مناتے رہیں گے؟ کب تک اپنے زوال کو نعمت سمجھ کر سینے سے لگاتے رہیں گے؟ رشوت، دھوکا دہی، ملاوٹ، اور لوٹ مار اب ہمارے قومی اوصاف بن چکے ہیں۔ ہم ہر وقت حکمرانوں، اداروں، اور نظام کو گالیاں دیتے ہیں، لیکن اپنی ذات کا محاسبہ کرنے سے ہمیشہ گریزاں رہتے ہیں۔

ہماری گلیوں میں سات آٹھ سال کے بچے موٹر سائیکل دوڑاتے ہیں، حادثات میں زخمی ہوتے ہیں یا جان گنواتے ہیں، لیکن والدین پھر بھی فخر سے کہتے ہیں “بڑا ہو گیا ہے، گاڑی چلا لیتا ہے!” یہ بے پروائی دراصل قانون شکنی کی تربیت ہے، جو ہم اپنے بچوں کو بچپن سے ہی دینا شروع کر دیتے ہیں۔

کسی نے رمضان میں دو ہزار دے دیے، کوئی قربانی کے جانور صدقے میں دے گیا، اور ہم اس کے گن گاتے نہیں تھکتے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ خیرات دکھاوا نہیں، انسانیت کا خالص جذبہ ہے — اور یہ تبھی معتبر اور مقبول ہے جب وہ ریاکاری سے پاک ہو۔

آج ہر گھر میں بجلی اور گیس کے بلوں کی دہائی ہے، مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ ہمارے اردگرد موجود ہزاروں نام نہاد فلاحی ادارے ہر ماہ کروڑوں کی بھیک اکھٹی کرتے ہیں، جن کا مصرف صرف اشتہارات اور تصاویر کی نمایش تک محدود ہوتا ہے۔ ان اداروں نے فلاحِ انسانیت کی آڑ میں بھیک مانگنے کو ایک باقاعدہ صنعت میں بدل دیا ہے، جس سے معاشرہ خود انحصاری کے بجائے مکمل طور پر ” دست نگر ” بنتا جا رہا ہے۔

اگر واقعی قوم کی حالت بدلنی ہے تو ہمیں خیرات کے نام پر جمع ہونے والی دولت کو ہنر، تعلیم، اور روزگار میں بدلنا ہوگا۔ ہر بے روزگار نوجوان اگر ایک ہُنر سیکھ لے تو ایک پورے گھرانے کا معیارِ زندگی بہتر ہو سکتا ہے۔

یاد رکھیے!
مچھلی کھلانا وقتی حل ہے، مگر مچھلی پکڑنا سکھانا مستقل تبدیلی کی بنیاد ہے۔
دوسروں کے پیسوں سے خیرات بانٹنا آسان ہے، اپنے خون پسینے کی کمائی سے کسی مجبور کی مدد کرنا اصل انسانیت ہے۔

جو شخص آٹھ سو روپے کی دیہاڑی میں دن بھر مزدوری کرتا ہے، کڑی دھوپ میں ریڑھی لگاتا ہے، یا فیکٹریوں میں بارہ بارہ گھنٹے کام کرتا ہے، وہ جب اپنی کمائی سے کسی کی مدد کرتا ہے تو اس کی نیکی میں خلوص، قربانی اور نیت کی پاکیزگی ہوتی ہے۔

جب تک ہم “رزق حلال” کی روح کو نہیں سمجھیں گے، ہماری نسلیں بے برکتی، اضطراب، اور اخلاقی دیوالہ پن کا شکار رہیں گی۔ بھیک مانگ کر ادارے چلانے والے یہ نہیں جانتے کہ عزت صرف کمانے میں ہے، مانگنے میں نہیں۔

ہمارے پیارے نبی پاک نے فرمایا:
“الکاسب حبیب اللہ”__ جو ہاتھ سے کماتا ہے، وہ اللہ کا محبوب ہے۔ تو پھر ہم کیوں ایسے کاموں میں اُلجھے ہوئے ہیں جو نہ محبوبیت دلاتے ہیں، نہ خود داری؟

آئیے، ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ:

“محنت” کریں گے،

دوسروں کو “ہنر” سکھائیں گے،

رزق حلال کو فروغ دیں گے،

بھیک نہیں، “خود داری” کا راستہ اپنائیں گے۔

کیوں کہ بندے کو بندگی “سجتی” ہے، دھندے کو “دیانت”

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.