بجٹ ایک گورکھ دھندہ

جمع تفریق۔۔۔ ناصر نقوی

6

حکومت کسی بھی ملک یا جماعت کی ہو؟ ایک قدر مشترک ہر جگہ پائی جاتی ہے, اس دور کے اخبارات ,چینلز پروگرام دیکھیں کہ 10سے 15 سال پرانے ،جس قدر مشترک کا میں ذکر کرنا چاہتا ہوں وہ آ پ کوچیختی چلاتی دکھائی دے گی ،حکومت چلانے کے لیے ماضی ،حال اور مستقبل کی سوچ کے حوالے سے منصوبہ بندی کی جاتی ہے اور ان منصوبہ جات پر عمل در آ مد کے لیے اخراجات کا تخمینہ لگاتے ھوئے بجٹ بنایا جاتا ہے اس بجٹ کو ایوان میں منظوری سے قبل کابینہ سے پاس کرایا جاتا ہے لہذا ایوان میں آ نے سے قبل اس کے اہم نکات کی مغبری ہو چکی ہوتی ہے لہذا بجٹ کی بھاری بھرکم دستاویزات کی تقسیم کے ساتھ ہی اپوزیشن ایوان میں شور شرابہ اور ہنگامہ شروع کر دیتی ہے کہ بجٹ عوام دشمن ہے، اس میں غریبوں اور متوسط طبقے کے جینے کے لیے کوئی گنجائش نہیں ،حکومتی اعداد و شمار صرف الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے، اس میں جان بوجھ کر پیچیدگیاں پیدا کی گئی ہیں تاکہ کسی کو کچھ سمجھ نہ آ ئے دستاویزات کی تیاری پر ایک خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے لیکن ارکان اسمبلی کی اکثریت اس بھار کو اٹھانے سے نالاں ہوتی ہے لہذا چند میں ممبران اسمبلی لے جاتے دکھائی دیں گے باقی انہیں اپنے نوکروں اور ملازمین کے حوالے صرف اس خواہش پر کر دیتے ہیں کہ کوئی اعتراض نہ کرے، ورنہ یہ دستاویزات محض ردی ہی سمجھی جاتی ہے حالانکہ یہی صحافیوں اور میڈیا ورکرز کے لیے قیمتی سرمایہ ہوتی ہے سینیئر اور ذمہ دار صحافی ان بجٹ دستاویزات سے سارا سال خبریں نکال کر حکومتی دعوے یاد کراتے رہتے ہیں بجٹ کی قدر مشترک یہ ہے جس طرح ہر بجٹ کو اپوزیشن عوام دشمن قرار دیتی ہے بالکل اسی طرح ہر حکومت کا دعوی بھی یہی ہوتا ہے کہ بجٹ عوام دوست اور اس قدر فلاحی و عوامی ہے کہ اس سے اچھا بجٹ بن ہی نہیں سکتا ،اگر آ پ ماضی کی تلاشی لیں تو پانچ سے 75 سال کی پاکستانی زندگی میں بلا امتیاز ہر دور میں چاہے حکومت جمہوری ہو کہ آ مرانہ یہی حقیقت دکھائی دے گی، الفاظ کا ایک جیسا گورکھ دھندہ ریکارڈ پر موجود ہے صرف سیاست دانوں اور رہنماؤں کے ناموں کی تبدیلی ملے گی، جملے اور الفاظ نہیں بدلیں گے، ساری شہ سرخیاں بھی ایک جیسی ملیں گی، دراصل ہم سہل پسندی میں صرف یہی سوچتے ہیں کہ ہمارے اقتدار اور بجٹ پر موجودہ حکومت نے بطور اپوزیشن کیا کہا تھا لہذا اب وہی انہیں لوٹا دیا جائے ،ترقی پذیر ممالک میں ایسا ہی رواج قائم ہے کیونکہ کچھ نیا کرنے کے لیے دستاویزات کا مطالعہ کرنا اور بھاری بھرکم دستاویزات کا جائزہ لے کر بات کرنی مشکل ہے یوں سب کے سب وقت گزاری میں عمومی جائزہ لے کر صرف مخالفت کرنا فرض سمجھتے ہیں، ہر بجٹ پر بحث کا آ غاز قائد حزب اختلاف کا آ ئینی حق ہے لیکن وہ بھی دستاویزات کا مکمل جائزہ لیے بغیر چند نکات پر گفتگو کر کے روایتی شور شرابے میں بنا کسی تعمیری تنقید کے ،،تنقید برائے تنقید،، کا نہ صرف سہارا لیتے ہیں بلکہ اکثر اوقات اجلاس کا بائیکاٹ کر کے ایوان سے باہر جانا پسند کرتے ہیں اور پھر حکومت اور حکومتی ارکان اپنی مرضی و منشا کے مطابق مختلف تجاویز سے بجٹ میں کانٹ چھانٹ کر کے بجٹ منظور کر لیتے ہیں اس وقت چاروں صوبوں اور وفاق کا بجٹ پیش کیا جا چکا ہے ،روایتی بحث و مباحثہ بھی جاری ہے ، روایتی ہنگامہ رائے بھی کہیں کم کہیں زیادہ دیکھی جا سکتی ہے لیکن کچھ نیا یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کا بجٹ پیش کر کے اس پر بحث کا آ غاز تو کر دیا گیا ہے لیکن اسے تحریک انصاف کے پیٹرن انچیف کی منظوری سے مشروط قرار دے دیا گیا ہے حالانکہ یہ کام بجٹ پیش کرنے سے پہلے کیا جانا چاہیے تھا لیکن جس طرح صوبائی روایت میں عید کا چاند ملک بھر میں سب سے پہلے نظر آ جاتا ہے، بالکل اسی طرح بجٹ بھی روایات سے پہلے ایوان میں نمودار ہو گیا اب منظور کیا جائے گا یا نہیں، یہ فیصلہ پیٹرن انچیف کریں گے اس حکمت عملی پر پارٹی میں اختلافات بھی موجود ہیں ایک بڑے گروپ کا کہنا ہے کہ وزیراعلی گنڈاپور نے پیٹرن ا نچیف کی منظوری کے بغیر اسے ایوان میں کیوں پیش کیا؟ وہ گنڈاپور کی حکمت عملی پہلے بحث اور پھر قائد سے منظوری کو بغاوت قرار دیتے ہیں بہر کیف عوامی مسائل یہ ہرگز نہیں, یہ تو پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے یا زیادہ سے زیادہ آ پ اسے قانونی کہہ لیں لیکن سوال ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ نئے بجٹ میں صوبائی یا وفاق کی سطح پر غریب اور متوسط طبقے کی ترقی اور خوشحالی کے لیے راوئیت سے ہٹ کر کیا رکھا گیا ہے، اگر ایسا ہے تو اس کی مثبت انداز میں بحث ہی نہیں، پذیرائی بھی ہونی چاہیے کیونکہ مہنگائی اور موجودہ معاشی حالات میں غریبوں اور سفید پوش ہطبقے کے لیے ہی زندگی گزارنا مشکل ہے اشرافیہ اور صاحب ثروت کو کیا پروا لگثرری گاڑیاں اور سامان آ سائش پر ٹیکس لگ بھی جائے توجہاں ایک کروڑ کی گاڑی لینی ہے وہاں وہ ایک کروڑ 10۔ لاکھ کی بھی خرید لیں گے، وفاق کا دعوی ہے کہ بجٹ عوام دوست ہے معاشی حالات میں ہی نہیں، مہنگائی میں بھی کمی آ ئے گی لیکن اس نے پہلی بار مزدور کی کم از کم آ مدنی میں اضافہ نہیں کیا لہذا مبصرین اور ناقدین کا الزام ہے کہ حکومت نے صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں سے دوستی نبھائی ہے
ملک کے بڑے صوبے پنجاب میں مریم نواز حکومت کا 5335۔ ارب روپے کا ٹیکس فری بجٹ صوبائی وزیر خزانہ مجتبی شجاع الرحمن نے پیش کیا ،اس میں تنخواہوں میں 10۔ فیصد اور پینشن میں پانچ فیصد اضافے کے علاوہ مزدور کی کم از کم اجرت بھی بڑھا کر 40 ہزار روپے کر دی گئی ہے بجٹ میں اس مرتبہ صحت، تعلیم اور ماحولیات کے شعبے میں پہلے سے

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.