خاموشی کی تنخواہ

تحریر: ڈاکٹر عمرانہ مشتاق

4

کہتے ہیں ظلم سے زیادہ ہولناک چیز خاموشی ہوتی ہے۔ وہ خاموشی جو مظلوم کو مزید بےبس اور ظالم کو مزید بےخوف کر دیتی ہے۔ طاقتور جب یہ جان لے کہ کمزور احتجاج نہیں کرے گا، تو وہ اس کی کمزوری کو اپنی طاقت میں بدل لیتا ہے۔ یہی وہ رویہ ہے جو اکثر گھروں، دفاتر اور کارخانوں میں روا رکھا جاتا ہے۔ اور اسی خاموشی کو روسی ادیب انتون چیخوف نے ایک مختصر مگر دل دہلا دینے والی کہانی میں زبان دی۔

چیخوف کی کہانی کا مرکزی کردار “یولیا واسیلیونا” نامی ایک نینی ہے، جو دو مہینے سے زائد وقت تک ایک گھر میں بچوں کی دیکھ بھال کرتی ہے۔ جب تنخواہ لینے آتی ہے تو اس کے سامنے طویل حساب کتاب کھول دیا جاتا ہے۔ کبھی اس پر بچوں کو پورا وقت نہ پڑھانے کا الزام لگایا جاتا ہے تو کبھی پلیٹ توڑنے اور جیکٹ خراب کرنے کا۔ نوکرانی کی چوری نہ روکنے تک کو تنخواہ میں کٹوتی کی وجہ بنا دیا جاتا ہے۔ یہاں تک کہا جاتا ہے کہ اس نے قرض لیا تھا حالانکہ وہ نرمی سے انکار کرتی ہے۔ جواب ملتا ہے: ریکارڈ میں درج ہے۔

ان سب حجتوں کے بعد جب اسے صرف چند سکے دیے جاتے ہیں، تو وہ بےبسی سے مٹھی میں دبا کر صرف “شکریہ” کہتی ہے۔ اور جب پوچھا جاتا ہے کہ کس بات کا شکریہ تو وہ آہستگی سے جواب دیتی ہے دوسری جگہوں پر تو کچھ بھی نہیں ملتا۔

یہ وہ لمحہ ہے جب چیخوف کی کہانی محض افسانہ نہیں رہتی، بلکہ ایک آئینہ بن جاتی ہے۔ اس آئینے میں ہم سب کے چہرے صاف دکھائی دیتے ہیں۔ وہ چہرے جو اپنے گھروں میں کام کرنے والوں سے کہتے ہیں پیسے کل لے لینا یا تم نے چھٹی کی تھی، اس دن کی تنخواہ کٹ جائے گی۔ ہم میں سے کتنے ہیں جو سوچتے ہیں کہ ان چند روپوں پر ان کا پورا ہفتہ، کبھی کبھار پورا مہینہ، کیسے گزرے گا.

چیخوف کے کردار کا سوال کہ تم نے احتجاج کیوں نہیں کیا اور یولیا کا جواب، ہاں، ایسا ممکن ہے، پوری دنیا کے مظلوم طبقے کا نمائندہ جملہ ہے۔ یہ وہ اعتراف ہے جو ہر اس شخص کی زبان پر ہے جو خاموشی سے تنخواہ میں کٹوتی برداشت کرتا ہے، جو اپنی محنت کا پورا معاوضہ نہ پا کر بھی سر جھکا لیتا ہے۔

آج بھی ہمارے گرد بےشمار یولیا واسیلیونا ہیں۔ وہ خواتین جو گھروں میں صفائی کرتی ہیں، وہ مرد جو فیکٹریوں میں مشقت کرتے ہیں، وہ نوجوان جو دفاتر میں وقت پر پہنچ کر بھی وقت پر تنخواہ نہیں پاتے۔ ان سب کی مشترکہ زبان وہی خاموشی ہے جو چیخوف کی کہانی میں گونجتی ہے۔

یہ خاموشی محض ایک فرد کی بےبسی نہیں، بلکہ ایک نظام کی ناکامی ہے۔ ایک ایسا نظام جو طاقتور کو حساب کا موقع دیتا ہے اور کمزور کو صرف شکریہ کہنے کا حق۔

اگر ہم نے ان یولیاؤں کی خاموش چیخ نہ سنی تو وہ دن دور نہیں جب معاشرتی انصاف صرف نصابی کتابوں میں باقی رہ جائے گا۔ چیخوف کا قلم برسوں پہلے خاموش سہی لیکن اس کا سچ آج بھی زندہ ہے۔ سوال یہ ہے: کیا ہم بھی اسی خاموشی کا حصہ ہیں یا ہمارے اندر اتنی جرأت باقی ہے کہ ہم ظلم پر خاموشی کے بجائے مزاحمت کا انتخاب کریں

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.