پاک بھارت جنگ اور جنوبی ایشیا کی تباھی،

تحریر: محمدندیم بھٹی

4

جب بھی جنوبی ایشیائی خطے میں سیاسی کشیدگی بڑھتی ھے، سب سے پہلے جو سوال ذہنوں میں ابھرتا ھے، وہ یہی ہوتا ھے کہ کیا ہم مزید ایک اور جنگ کے متحمل ہو سکتے ہیں؟” یہ سوال صرف پاکستان یا بھارت کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے اہمیت کا حامل ھے، کیونکہ یہ دونوں ممالک ایٹمی طاقت رکھتے ہیں اور ان کے مابین کسی بھی نوعیت کا مسلح تصادم نہ صرف خطے بلکہ عالمی امن کو بھی خطرے میں ڈال سکتا ھے۔
قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک دونوں ممالک کے درمیان چار بڑی جنگیں (1948، 1965، 1971، اور 1999 کی کارگل جنگ) ہو چکی ہیں۔ ہر جنگ کے بعد نہ صرف انسانی جانوں کا ضیاع ہوا بلکہ معیشت، تعلیم، صحت اور دیگر شعبے بھی بری طرح متاثر ہوئے۔ ان جنگوں نے یہ ثابت کر دیا کہ کوئی بھی فریق اس میں فاتح نہیں ہوتا، صرف نقصانات کا پلڑا بھاری ہوتا ھے۔
پاکستان اور بھارت دونوں نے ایٹمی طاقت کے مظاہرے کیے ہیں۔ بھارت نے 1974 اور 1998 میں ایٹمی دھماکے کیے جبکہ پاکستان نے 1998 میں چاغی کے پہاڑوں میں دھماکے کر کے اپنی دفاعی صلاحیت کا اظہار کیا۔ اگرچہ یہ طاقت بظاہر “ڈیٹرنس” یعنی دشمن کو روکنے کا ذریعہ سمجھی جاتی ھے،
لیکن اگر غلط فہمی یا کسی اشتعال انگیزی کی بنیاد پر کوئی ایک فریق پہل کر بیٹھے تو اس کے اثرات ہزاروں میلوں تک محسوس کیے جائیں گے۔
میری طویل ترین ریسرچ کے مطابق اگر دونوں ممالک کے درمیان مکمل ایٹمی جنگ ہوئی تو ابتدائی 48 گھنٹوں میں 10 سے 20 کروڑ لوگ لقمۂ اجل بن سکتے ہیں، اور آنے والے برسوں تک فضا، پانی اور زمین آلودہ ہو جائے گی، جس کے اثرات نہ صرف جنوبی ایشیا بلکہ پوری دنیا میں محسوس کیے جائیں گے۔
ایک ممکنہ جنگ کی صورت میں سب سے زیادہ قیمت انسانیت کو ادا کرنی پڑے گی۔ صرف سرحدوں پر لڑنے والے فوجی ہی نہیں بلکہ عام شہری، خواتین، بچے، بوڑھے سب متاثر ہوں گے۔ ہسپتال زخمیوں سے بھر جائیں گے، شہروں میں ایمرجنسی نافذ ہو گی، اور پناہ گزینوں کی تعداد لاکھوں میں جا پہنچے گی۔ جو بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کا مستقبل تاریکی میں ڈوب جائے گا، اور بے شمار خاندان ہمیشہ کے لیے اجڑ جائیں گے۔
جنگ کی صورت میں سب سے پہلا وار معیشت پر ہوتا ھے۔ پاکستان اور بھارت دونوں پہلے ہی مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن، اور قرضوں کی دلدل میں دھنسے ہوئے ہیں۔ ایک طویل جنگ کا مطلب ھے دفاعی اخراجات میں بے پناہ اضافہ، جب کہ زراعت، صنعت، سیاحت اور برآمدات جیسے شعبے مفلوج ہو جائیں گے۔
پاکستان کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط پہلے ہی سخت ہو چکی ہیں، روپے کی قدر کم ہو رہی ھے اور مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر ھے۔ ایسے میں اگر جنگ چھڑ جائے تو ملک کا معاشی نظام مکمل طور پر تباہ ہو سکتا ھے، اور نتیجتاً عوام مزید غربت، فاقہ کشی اور بدامنی کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔
جنگ نہ صرف جسمانی تباہی لاتی ھے بلکہ ذہنی و نفسیاتی سطح پر بھی قوموں کو مفلوج کر دیتی ھے۔ جنگی ماحول میں نفرت، تعصب، قوم پرستی اور دیگر منفی جذبات کو فروغ ملتا ھے۔ میڈیا پر بھی چینل کی رپورٹ ریٹنگ اور جنگی جنون مسلط ہو جاتا ھے، اور امن پسند آوازیں دب جاتی ہیں۔
مزید یہ کہ جنگی حالات میں تعلیمی ادارے بند ہو جاتے ہیں، نوجوانوں کو فوج میں بھرتی کیا جاتا ھے، اور سویلینز کی زندگی اجیرن ہو جاتی ھے۔ بچوں میں ذہنی دباؤ، ڈپریشن اور پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس جیسی بیماریاں بڑھتی ہیں، جن کے اثرات نسلوں تک قائم رہتے ہیں۔
پاکستان اور بھارت کے لیے سب سے بڑا خطرہ یہ بھی ہو سکتا ھے کہ کسی نئی جنگ کی صورت میں اسے عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا سامنا کرنا پڑے۔ آج کی دنیا جنگ سے نفرت کرتی ھے، اور دنیا کی بڑی طاقتیں کسی بھی تصادم کو روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔ اگر پاکستان یا بھارت میں سے کوئی پہل کرے تو وہ اقوامِ متحدہ، او آئی سی، یا دیگر بین الاقوامی اداروں میں اپنا مؤقف کھو سکتا ھے۔
مزید یہ کہ دشمن ملک کو یہ موقع ملتا ھے کہ وہ خود کو مظلوم اور دوسرے کو جارح ثابت کرے، جس سے سفارتی محاذ پر نقصان ہوتا ھے۔ ایسی صورتحال میں عالمی سرمایہ کاری رک جاتی ھے، ترقیاتی منصوبے منجمد ہو جاتے ہیں، اور اقتصادی رابطے ختم ہو جاتے ہیں۔ جو انسان اور انسانی زندگیوں کے لئے مہلک ثابت ھو سکتے ہیں۔
کشمیر، پانی، سرحدی تنازعات اور دہشت گردی جیسے مسائل کو اگر جنگ سے حل کیا جا سکتا تو یہ مسئلے کب کے ختم ہو چکے ہوتے۔ تاریخ نے بارہا ثابت کیا ھے کہ آخرکار میز پر بیٹھ کر بات کرنا ہی واحد راستہ ھے۔ بھارت ہو یا پاکستان، دونوں کو یہ سمجھنا ہو گا کہ نفرت، الزام تراشی اور اشتعال انگیزی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا بلکہ نقصانات بڑھتے ہیں۔
اس سلسلے میں عوامی رائے اور میڈیا کا کردار بھی کیا ھونا چاہیے
بدقسمتی سے دونوں ممالک کے بعض میڈیا ہاؤسز اور سوشل میڈیا اکاؤنٹس جنگ کو سنسنی خیز انداز میں پیش کرتے ہیں۔ “سرجیکل اسٹرائیک”، “بدلہ لیں گے”، “خون کا بدلہ خون” جیسے نعرے عوام میں غصہ اور جذبات کو بھڑکاتے ہیں۔ حقیقت یہ ھے کہ عوام دونوں طرف غربت، بے روزگاری، بیماری اور تعلیم کے مسائل سے نبرد آزما ہیں۔ انہیں جنگ نہیں، امن اور خوشحالی کی ضرورت ھے۔یہ وقت ھے کہ سنجیدہ صحافت اور امن پسند دانشور میدان میں آئیں، اور عوامی شعور بیدار کریں کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں بلکہ ایک نئی تباہی کا آغاز ھے۔
اگر پاکستان اور بھارت اپنے وسائل جنگ کی بجائے تعلیم، صحت، سائنس و ٹیکنالوجی، اور غربت کے خاتمے پر خرچ کریں تو چند ہی دہائیوں میں یہ خطہ دنیا کے ترقی یافتہ خطوں کے ہم پلہ ہو سکتا ھے۔ جو شاید بیرونی طاقتیں نہیں چاھتیں۔
جنوبی ایشیاء ڑے ملکوں کی فروخت کندگان منڈیاں بھی ہیں ۔جس کے لئےکا امن پوری دنیا کے مفاد میں ھے، اور یہ تب ہی ممکن ھے جب

جواب چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.